اسلا م آباد (خصوصی رپورٹر) سینٹ الیکشن کیس میں چیف جسٹس گلزار احمدکا کہنا ہے کہ سیاسی جماعت کے اندر بھی جمہوریت ہونی چاہئے، سیاسی جماعتوں میں بھی ڈکٹیٹر بیٹھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بھی تقریباً ساری جماعتیں ون مین پارٹی ہیں۔ سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس جسٹس گلزار احمدکی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل جاری رکھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا لوگ ایم پی ایز کو ووٹ اس کی پارٹی وابستگی کی وجہ سے دیتے ہیں۔ پارٹی کے خلاف ووٹ دینا عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا پارٹی میں ڈسپلن نہ ہو تو ایوان میں اکثریت کیسے رہے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا آزاد امیدوار جس کو چاہے ووٹ دے سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آزاد امیدوار کو تجویز اور تائیند کنندہ کہاں سے ملیں گے؟۔ چیف جسٹس نے کہا سیاسی جماعت کے اندر بھی جمہوریت ہونی چاہئے۔ سیاسی جماعتوں میں بھی ڈکٹیٹر بیٹھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بھی تقریباً ساری جماعتیں ون مین پارٹی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا ماضی میں 4غیرمنتخب افراد فیصلہ کرتے رہے کہ وزیراعظم کون ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا پارٹی سربراہ سب کی رائے لیکر فیصلہ کرے تو ہی بہترہوگا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا لگتا ہے اٹھارہویں ترمیم میں اوپن بیلٹ جان بوجھ کر شامل نہیں کیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا ممکن ہے اوپن بیلٹ اٹھارہویں ترمیم کرنے والوں میں سیاسی منشاء ہی نہ ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے اٹھارہویں ترمیم کرنے والے اپنا وعدہ ہی پورا کرنا چاہتے ہیں، جسٹس عمر نے کہا سینٹ پارلیمانی نظام میں استحکام لاتا ہے۔ قومی اسمبلی میں سیاسی طوفان رہتا ہے لیکن سینٹ میں نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا جس میں ضمیر کے مطابق کھڑا ہونے کا حوصلہ ہے وہ سامنے بھی آئے۔ پارٹی کیخلاف ووٹ دینے پر نااہلی نہیں ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا ایوان بالا کا ہونا کیوں ضروری ہے اس پر دلائل دیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا سینٹ وفاق کی علامت ہے جہاں تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ایوان بالا کے لوگ کرپٹ نظام کے تحت آئیں گے تو کیا بچے گا؟۔ اٹارنی جنرل کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی مزید سماعت 7 فروری تک ملتوی کردی گئی۔