’’کشمیر‘‘ صرف جغرافیائی اور نظریاتی طور پر ہی پاکستان سے جُڑا ہوا نہیں بلکہ تاریخی اور جذباتی لحاظ سے بھی یکجان دو قالب کی طرح ہے۔ لفظ ’’کشمیر’’ جنات کے سردار ’’کاش‘‘ اور پریوں کی ملکہ’’میر‘‘ کے ناموں کے باہم اختلاط سے وجود میں آیا ہے۔ جس سے یہ روائت منسوب ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت ہوا میں اڑتا ہوا ’’کشمیر‘‘ کے اوپر سے گزرنے لگا تو اس جنت نظیر وادی کا نظارہ دیکھ کر آپ نے اپنا تخت ’’سری نگر‘‘ کے عقب میں ’’کوہ برمکھ‘‘ کی چوٹی پر اتار دیا۔ جس کے چاروں اطراف پانی تھا۔ آپ کے حکم پر’’کاش‘‘ نے ’’بارہ‘‘ کا پہاڑ کاٹ کر پانی کی آمدو رفت کا راستہ بنا دیا۔ جس پر آپ نے خوش ہو کر ’’میر‘‘ کو ’’کاش‘‘ کے عقد میں دے دیا۔ یوں اس وادی کا نام ’’کشمیر‘‘ مشہور ہوا۔ چودھویں صدی عیسوی میں سید علی ہمدانی کشمیر آئے تو انہوں نے اس روائت کے تناظر میں کشمیر کو’’ باغِ سلیمان‘‘ کا نام دیا۔کشمیری مسلمانوں کے ساتھ نا انصافیوں اور ظلم کا سلسلہ ازمنہ قدیم سے ہے۔ جس کے خلاف 1935ئ میں پہلی مرتبہ ’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی‘‘ بنی۔ جس کے سربراہ بزرگ کشمیری رہنما چوہدری غلام عباس۔ سیکرٹری جنرل علامہ اقبال اور ایک ممبر بزرگ سیاستدان’’ نوابزادہ نصر اللہ خاں مرحوم‘‘ تھے۔ جس کی اپیل پر برصغیر میں کشمیریوں کے حقوق کی خاطر انگریزوں کے خلاف زبردست تحریک چلائی گئی۔ وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔ اور صرف 17سال کی عمر میں نوابزادہ نصر اللہ خاں بھی گرفتار ہوئے۔ نوابزادہ نصر اللہ خاں کا کشمیر کے ساتھ جذباتی لگائو کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے خان گڑھ میں اپنی کوٹھی میں شہتیر۔ کڑیاں۔ کھڑکیاں۔ دروازے۔ میزیں۔ سگار دان اور تمام فرنیچر کشمیری لکڑی کے استعمال کئے جو آج بھی موجود ہیں۔ یہ لکڑی دریا کے ذریعے کشمیر سے راولپنڈی اور وہاں سے بذریعہ ریل گاڑی خان گڑھ تک پہنچائی گئی۔ بینظیر دور حکومت میں انہوں نے صرف’’ آزادی کشمیر‘‘ کی خاطر ’’چئیر مین کشمیر کمیٹی‘‘ کا عہدہ قبول کیا اور کشمیر کے حوالے سے جب وہ ’’ جنیوا کنو نشن‘‘ میں جانے لگے تو وزیر اعظم ’’بینظیر بھٹو شہید‘‘ نے انہیں ’’ترکی‘‘ سے تانبے کا بنا ہوا ’’الیکٹرک فلٹر‘‘ حقہ منگوا کر بطور تحفہ دیا۔مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو آج 73 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ گذشتہ دہائی میں’’ شرائن پورہ تحریک‘‘ سے لے کر ’’جموں کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک اور بعد کے ادوار تک لاکھوں زندگیاں اس آزادی کے مشن پر قربان ہو چکی ہیں۔ خواتین کی عصمت دری اور دوسرے مظالم کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ 21 جنوری1990ئ ’’گائو کدل‘‘ میں مسلمانوں کا قتل عام اور اسی ماہ جنوری میں سو پورہ ۔ مگھر مل باغ ہندوارہ برسہرہ میں خون کی ہولی اور دوسرے مظالم۔ بھارتی ریاستی دہشت گردی کا مظہر ہیں۔ اس کی وجہ کشمیر پر ناجائز تسلط قائم کر کے پاکستان کے خلاف مضبوط جنگی پوائنٹ کا قیام ہے۔ اگر پاکستان کو مقبوضہ کشمیر مل جاتا ہے تو یہ اس کے لیے ایک مضبوط ’’فلیش دفاعی پوائنٹ‘‘ ثابت ہوگا۔ امریکہ بھی پاکستان کو سی پیک منصوبے کے بعد چین کا حلیف سمجھتا اور ناپسند کرتا ہے۔ وہ انڈیا کو کشمیر سے نکال کر یہاں اپنی ایک نگہبان چوکی قائم کر سکتا ہے۔ جہاں سے وہ ایران۔ چین اور پاکستان پر نظر رکھ کر بہتر جنگی نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ جس کا ذکر امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔ اس لیے امریکہ سے ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کی آزادی کے لیے بطور ثالث کوئی مثبت کردار محض ایک خام خیال ہے۔مودی سرکار بھارت کو ’’ بدمعاش ریاست‘‘ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ بھارتی اینکر ’’ ارنب گوسوامی‘‘ اور بھارتی ’’براڈ کاسٹنگ آڈئینس ریسرچ کونسل‘‘ کے سربراہ کی وٹس اپ پیسٹ نے ساری دنیا میں مودی کے مظالم کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ ایک برطانوی وزیر اور دس اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ ’’سارا اودن‘‘ اور ’’ جیمز ڈیلی‘‘ نے اپنی تقاریر میں مقبوضہ کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضے۔ لاک ڈائون۔ پانچ لاکھ سے زائد فوجیوں کی بد معاشیوں ۔ عصمت دریوں۔ ماورائے عدالت قتل اور 15ہزار سے زائد کشمیریوں کو جیل میں بند کرنے جیسے مظالم بیان کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف صرف بیان بازی نہیں بلکہ عملی اقدامات کا مطالبہ کیا۔ انہیں خیالات کا اظہار ’’ ہیومن رائٹس واچ‘‘ کی جنوبی ایشیاء کی ڈائریکٹر مینا کشی گنگولی نے بھی کیا۔ ’’اسلامی تعاون تنظیم‘‘۔ ’’ او۔ آئی۔سی‘‘ کے وزرائے خارجہ کونسل 47ویں اجلاس میں بھی تنازع جموں کشمیر۔ ’’اسلامو فو بیا‘‘ کے خلاف قرار دادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔ لیکن مذاکرات اورقرار دادیں منظور کر کے کسی کُتے کے منہ سے ’’ ہڈی‘‘ نہیں نکلوائی جا سکتی۔ اس کے لیے ’’ڈنڈے‘‘ کا استعمال درکار ہوتا ہے۔
وادیٔ کشمیر کے جذباتی۔ جغرافیائی اور روحانی پہلو
Feb 05, 2021