تحریک آزادی کشمیر کیلئے نوید مسرت بن سکتی ہے؟مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت حتمی چال چل چکا ہے اب ہماری باری ہے۔ کشمیریوں کی تین نسلیں آزادی کی جدوجہد کرچکی ہیں موجودہ نسل ہر طرح کے خوف سے بالاتر ہوکر آخری معرکہ آرائی کیلئے تیار ہے اگست 2018 کے بھارتی اقدام کے باعث چین بھی مسئلہ کشمیر کا متحرک فریق بن چکا ہے اس حوالے سے بھارت چین اور پاکستان کا مشترکہ دشمن ہے سی پیک کے ذریعے چین پاکستان کا سٹریٹجک پارٹنر بن گیا ہے ہمارے مفادات مشترکہ ہیں جبکہ بھارت ہمارا مشترکہ دشمن ہے مسئلہ کشمیر پر چین پاکستان کا حمایتی ہی نہیں بلکہ ساتھی بن چکا ہے۔ آج ہم ایک بار پھر یوم کشمیر منارہے ہیں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیلئے آج پورے پاکستان میں تعطیل ہے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا مسئلہ کشمیر کو اجاگر کررہے ہیں اس مسئلے کے تمام پہلو لکھے اور بولے جارہے ہیں سرکاری سطح پر بھی تقریبات منعقد کرکے معاملے کو اجاگر کیا جارہا ہے کشمیر، وادی کشمیر پاکستان کی تکمیل ہی نہیں بلکہ سالمیت اور بقا کا مسئلہ ہے کشمیری مسلمانوں کا یہ مسئلہ صرف پاک بھارت وجہ تنازعہ نہیں ہے بلکہ یہ اقوام عالم کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اقوام عالم نے بڑے واضح انداز میں اپنی رائے دے رکھی ہے کہ ’’کشمیریوں کو پوچھا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ‘‘ اس کیلئے رائے شماری کرائی جائے تاکہ کشمیریوں کی خواہش کے مطابق اس ریاست کا الحاق کیا جاسکے‘‘بھارتی قومی قیادت نے اقوام عالم کو اس حوالے سے یقین دہانی بھی کرائی تھی زبانی کلامی نہیں بلکہ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ایسا کرنے کا تحریری وعدہ بھی کیا تھا یہی وجہ ہے کہ 70 سال تک یعنی 2018 تک کشمیر بھارتی آئین کے مطابق بھی ’’خصوصی حیثیت‘‘ کا حامل خطہ تھا حتیٰ کہ اگست 2018 میں مودی سرکار نے کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت یونین میں ضم کرنے کا اعلان کردیا اس دن سے آج تک وہاں 9 لاکھ بھارتی سکیورٹی فورسز توپ وتفنگ کے ساتھ، کرفیو کی آڑ میں براجمان ہیں اقوا م عالم کے ساتھ کئے گئے وعدے بھی کہیں گم کردیئے گئے ہیں 80 لاکھ سے زائد کشمیریوں پر غلامی کی سیاہ رات طاری کردی گئی ہے وہاں ہندوئوں کو لا کر بسایا جارہا ہے انہیں جائیدادیں خریدنے اور وہاں کاروبار کرنے کی نہ صرف اجازت دے دی گئی ہے بلکہ ریاستی ادارے انہیں مدد بھی دے رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے کہ کشمیر میں ہندوئوں کو بسایا جائے تاکہ علاقے ، خطے کی ڈیموگرافی تبدیل ہوجائے مسلمانوں کی اکثریت کو تبدیل کرنے کی کاوشیں بڑی تندہی سے جاری ہیں۔ہمارے ہاں بھی کچھ عناصر یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان نے مسئلہ کشمیر حل کردیا ہے کیونکہ اگست 2018 کے مودی ایکشن کیخلاف دنیا میں کہیں بھی طاقتور آواز نہیں اٹھائی گئی۔ امریکی سرکار نے ٹرمپ کی قیادت میں مودی سرکار کے ساتھ محبت کی پینگیں چڑھائے رکھیں ٹرمپ نے ہندو امریکی ووٹ کے حصول کیلئے مودی سرکار کی ناجائز حرکات پر بھی آنکھیں بند کئے رکھیں عرب لیگ اور آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس نے بھی بھارتی اقدام کیخلاف آواز بلند نہیں کی۔ پاکستان بوجوہ طاقتور جواب نہیں دے سکا ان سب باتوں نے مل جل کر مودی سرکار کے ناجائز اقدام کے جائز ہونے کا تاثر قائم کیا، جائز نہ بھی سہی لیکن عالمی برادری کی قبولیت کا تاثر ضرور پیدا کیا ۔لیکن حقیقت احوال یہ ہے کہ اس مسئلے پر 1972 سے 460 میل لمبی لائن آف کنٹرول پر 2003 تک سیز فائر رہا اس کے بعد سے یہاں پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے 2018 میں کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کے بعد صرف 2018 میں یہاں 86 سویلین اموات ہوچکی ہیں۔ اطراف کے فوجیوں کی تعداد اس سے کئی گنا ہے ۔لائن آف کنٹرول کے آرپاردونوں ملکوں کی افواج حالت جنگ میں ہی بھارت پاکستان پر فضائی حملہ بھی کرچکا ہے جس میں اسے بری طرح ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔ پاکستانی قیادت کی بالغ نظری کے باعث دونوں ملک مکمل جنگ سے بچ رہے وگرنہ مودی سرکار کی پالیسیوں نے تو جنگ کا جہنم دہکانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ کشمیر اب خطے میں دنیا کا سب سے خطرناک ایٹمی کشیدگی کا مرکز و محور بن چکا ہے ۔ مودی کا پاگل پن صرف کشمیریوں پر ہی نہیں بلکہ عالمی امن کیلئے بھی انتہائی خطرناک بن چکا ہے۔پاک بھارت کشمیر کے تنازعہ پر کئی جنگیں بھی لڑ چکے ہیں جبکہ کنٹرول لائن پر ہمہ وقت ’’حالت جنگ‘‘ طاری رہتی ہے۔ کشمیر کے اس تنازعے نے پاک بھارت کے درمیان اسلحے کی دوڑ شروع کی جو ایٹمی صلاحیت کے حصول پر منتج ہوئی بھارت نے پہلے اور پاکستان نے بعد میں ایٹمی صلاحیت حاصل کی۔ اب یہ دونوں ایٹمی ریاستیں ایک دوسرے کے سامنے ڈٹی ہوئی ہیںبھارت اپنے قیام کے روز اول سے ہی پاکستان کیخلاف برسرپیکار ہے اور اسے نقصان پہنچانے میں مصروف ہے سقوط ڈھاکہ بھارت کی اس پالیسی کا شاخسانہ تھا ۔
لداخ میں چین بھارت کشیدگی
Feb 05, 2021