لکڑی کے دروازے کو توڑتے ہوئے اور چارد یواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھروں میں گھس کر عورتوں کی بے حرمتی کرنا اور جوانوں کو عقوبت خانون اور زندان خانوں میں محبوس کرنا ہندوستان کی بزدل افواج کا فوجی ہتھیار بن چکا ہے۔ برسہابرس کے ہزاروں لاپتہ افراد کی بیویاں ایک نئی اصطلاح کے مطابق " Half Widows" یا’’ آدھی بیوائیں‘‘ بن چکی ہیں۔ ان کو برسوں سے یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ ان کے شوہر زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔ پوری دنیا میں مقبوضہ کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جس میں عورتوں کو اپنے مستقبل کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیر کی آدھی بیواؤں کے حقوق کے لئے ضرور آواز اٹھا نی چاہئے ۔
ہر سال 5 فروری ہمیں 85ء کے وہ دن یاد دلانے کے لئے آجاتا ہے۔ جب ایک طرف افغانستان میں آگ اور بارود کا میدان گرم تھا اور دوسرے طرف کشمیر میںآزادی کی تحریک سرگرم عمل ہو رہی تھی۔ مشہور کشمیری راہنما محترم الیف الدین ترابی صاحب سعودی عرب سے اپنی تعلیم مکمل کر کے پاکستان آگئے تھے۔ وہ اکثر ہمارے ڈرائینگ روم میں جماعتِ اسلامی کی قیادت کو وادی کے اندر سرگرم نوجوانوں کی سرفروشانہ تحریک کے احوال سناتے ۔ کبھی ان کی بات سمجھ آتی ،گا ہے اس کو اتنی اہمیت نہ دی جاتی۔یہاں تک کہ بڑی تعداد میں نوجوان مقبوضہ کشمیر سے برف زاروں کو روندتے ہوئے آزادکشمیر پہنچے ۔ ان میں سے بہت سے شیر دل نوجوانوں کے اعضاء کو برف نے کھالیا تھا اور ان کی دردناک حالت کو دیکھ کر ہم ماؤں کے دل اہل اہل گئے تھے۔ جماعتِ اسلامی کے کارکنان نے دامے، درمے، سخنے اپنے جان و دل وار دئیے تھے۔وہ اپنی مخلص اور جی دار قیادت کے زیر سایہ میدان میں دیوانہ وار نکل آئے تھے اور انہی دنوں انہوں نے 5 جنوری1990 ء کو ملتان ائیرپورٹ پر اپنے امیر قاضی حسین احمد کی قیادت میں پریس کانفرنس میں الٹی میٹم دیا کہ حکومت ٹھیک ایک ماہ بعد 5 فروری 1990ء کو یومِ کشمیر کا اعلان کر دے ۔ ہم ایک ماہ تک پوری قوم کو بیدار کریں گے اور 5 فروری کو پورے جوش و ولولہ سے دنیا کو بتا دیں گے ’’ہم کشمیری ہیں ، کشمیر ہمارا ہے‘‘۔ جس طرح وہ اپنے بوڑھے شیر علی گیلانی بابا کے زیر سایہ بلند آہنگ سے پکارتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں ، پاکستان ہمارا ہے۔پنجاب میں اس وقت آئی جے آئی کی حکومت تھی۔ محترم میاں نواز شریف صاحب نے قاضی صاحب کی اس اپیل پر لبیک کہا اور پنجاب میں 5 فروری 1990ء کو یومِ کشمیر کا اعلان کردیا۔ پنجاب کا رُخ دیکھتے ہی مرکز میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھی قاضی صاحب کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور یوں پوری قوم نے متفقہ طور پر یومِ کشمیر کا آغاز کر دیا۔ اس وقت کا ولولہ اور جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
سلیم ناز بریلوی کے ترانوں نے آزادی کی شمع کو مزید بھڑ کا دیا تھا ۔ کسی صحافی نے یہ تاثر بالکل درست دیا ہے کہ اس وقت کی جو تصویر بھی نکالیں ۔ کشمیر کی ہر بڑی ریلی میں جماعتِ اسلامی کے جھنڈے نمایاں نظر آتے ہیں ۔ آزادی کشمیر کی تحریک کو جماعتِ اسلامی نے ابتداء سے ہی زندہ رکھا ہے۔مودی نے کشمیر سے متعلق دو خصوصی آرٹیکلز 35 اے اور 370 کو منسوخ کر کے اپنے آئین کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ اپنی جمہوریت کا چہار عالم میں مذاق بنوا دیا اور ہندوستان میں جاری علیحدگی کی تحریکوں میں نئی جان ڈال دی ہے۔اس ظالمانہ اقدام سے کشمیریوں کی پانچویں نسل میں بغاوت کے بیج بو کر آزادی کے پھریرے بلند کرنے کا عزم بھی مضبوط ہواہے۔
آرٹیکلز 37 A اور 370 کے ہٹانے کے اقدامات:
برصغیر کی آزادی کے وقت کشمیر تمام اصولوں کے مطابق پاکستان کا حصہ بننا تھا، جغرافیائی ، تہذیبی اور دینی لحاظ سے کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے مگر سکھ راجہ نے اسے آزاد ریاست بنانے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد ہندوستانی فوج نے کشمیر مین اپنی فوجیں زبردستی داخل کر دیں اور نہرو نے طویل مذاکرات کے بعد الحاق کی ایک دستاویز پر راجہ ہری سنگھ سے دستخط کروادئیے ۔یہ دستاویز ابھی تک متنازعہ ہیں۔ اس کے مطابق 3 شعبوں، دفاع ، امورِ خارجہ اور مواصلات کے شعبے بھارت کو دئیے گئے اور باقی تمام شعبے ریاست کی اپنی مرضی سے چلائیں جائیںگے۔ 1952ء میں نہرو نے طویل مذاکرات کے بعد کشمیری قیادت سے یہ طے کرایا کہ آئینی تحفظات کے تحت کشمیریوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور 1954ء میں آرٹیکل35 A کے تحت اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ’’ ریاستی اسمبلی اس بات کا تعین کرے گی کہ مقامی شہری ( مستقل رہائشی) کون ہے؟؟
آرٹیکل 370 کے تحت:
٭جموں کشمیر کی رہائشیوں کے پاس دوہری شہریت ہوتی ہے۔٭جموں و کشمیر کی رہائشی خاتون اگر کسی دوسری ریاست کے آدمی سے شادی کرے تو اس کی کشمیر کی شہریت ختم ہو جاتی ہے۔٭جموں و کشمیر میں پنجائیت کے پاس کوئی اختیار نہیں۔٭جموں و کشمیر کا جھنڈا الگ ہے٭اسمبلی کی مدت چھ سال جب کہ ہندوستان کی دوسری ریاستوں کی اسمبلی کی مدت 5 سال ہے۔
ان آرٹیکلز کے ہٹا دینے سے کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی ہے اور اس طرح فلسطین میں اصل باشندوں کو بے دخل کرکے یہودیوں کو لا کر بسایا گیا اور اسرائیل کی بنیاد ڈالی گئی، اسی طرح یہاں بھی آبادی کے تناسب کو بدلنے کی خطرناک سازش کے بیج بوئے گئے ہیں۔ میں اپنے والد سے پوچھا کرتی تھی کہ جب اسرائیل بن رہا تھا تو مسلمان کہاںمر گئے تھے ۔ مجھے اب اس کا جواب مل رہا ہے کہ وہ بھی اسی طرح مودی کے گلے میں ہار پہنا رہے ہوں گے۔اسی لئے ثریانے آسمان سے زمین پر ہم کو دے مارا۔ اتنے دن ہوگئے ہیں،لاکھوں انسانوں کو زندہ دفن کرنے کی تیاریاں ہیں، نہ کھانے کو کچھ، نہ کسی سے بات کرنے کا ، نہ دوائیوں کا انتظام اور اوپر سے ہندوستانی فوج دنیا کی وہ واحد بے حمیت فوج ہے جس نے عورت کی بے حرمتی کو فوجی ہتھیارکے طور پر استعمال کیا ہے۔ گھروں سے جوان بچیوں کو اٹھایا جاتا ہے اور والدین کے سامنے بے حرمت کیا جاتا ہے۔ کاش ہندوستان میں کوئی عقل سلیم رکھنے والاغیرت مند مرد ہوتا؟
تنازعہ کشمیر کی طرف سے اقوامِ متحدہ کی فوری توجہ کی ضرورت یہ ہے کہ کشمیری عوام بھارتی سامراج اور ہندو فسطائیت میں موت اور تباہی کے بھنور میں پھنس گئے ہیں۔ اگست 2019ء کے غیر قانونی اور یک طرفہ اقدامات کی وجہ مسلم اکثریتی علاقے کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے خطے کے تمام قوانین تبدیل کردئیے گئے ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں بڑے پیمانے پر نسل کشی کا خطرہ ہے۔
٭…٭…٭