مسئلہ کشمیر فیصلہ کن گھڑی

5 فروری یکجہتی کشمیر کا قومی دن ہے، ریاست جموںو کشمیر کے عوام کی تحریک آزادی اور حق خودارادیت کے حصول کے لیے لازوال جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے اور 22کروڑ پاکستانیوں کے کشمیریوں کے ساتھ غیر متزلزل پشتی بانی کے اعلان کا دن ہے۔ برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان کے بعد سات عشروں سے زائد مدت گزر گئی، دو نسلوں کا زمانہ گزر گیا، تیسری نسل زندگی کی زمام کار سنبھال رہی ہے اس ساری مدت میں ریاست جموں وکشمیر کے عوام نے بھارت کے جبر، ظلم، غیر انسانی فاشسٹ روش کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ آزادی اور حق خودارادیت کے لیے اپنے عزم کو ہمیشہ جوان رکھا اور دنیا بھر میں آزادی کی بے مثال تحریک بن گئی ہے۔ 73سالوں میں پاکستان نے آزادی کشمیر کے لیے اپنی شہ رگ کی بازیابی کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں، بہت نقصانات اٹھائے ہیں، لیکن پاکستان کی سیاسی عسکری پالیسی سازی میں دوقدم آگے پانچ قدم پیچھے کی حکمت عملی نے تذبذب پیدا کیا، کشمیریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا اور پاکستان کے لیے بھی خطرات بڑھتے ہی چلے گئے جب کہ بھارت نے جھوٹ، مکروفریب، ظلم و جبر اور جموں کشمیر پر ناجائز قبضہ کو برقراررکھنے، ہڑپ کرنے کی حکمت عملی کے تسلسل کو قائم رکھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے آر یا پار کے فیصلہ کن مرحلہ پر پوری قوم یک جان اور یک آواز ہو جائے۔ 5؍فروری یکجہتی کشمیر کا دن اسی حق اور عمل کا متلاشی ہے۔
5؍اگست 2019ء کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوستان کے آئین میںعالمی برادری، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں آرٹیکل 370اور A -35 کو ختم کر کے ریاست جموں و کشمیر کو ہڑپ کرنے کا صریحاً فاشسٹ اقدام کیا، کشمیریوں کے جذبات کو دبانے اور آواز کو کچلنے کے لیے تاریخ کا بدترین لاک ڈائون مسلط کیا۔ کشمیری مرد و خواتین، نوجوانوں اور محنت کشوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی، پوری دنیا سے بھارتی اقدام کیخلاف آوازیں بلند ہوئیں لیکن بھارت کا آمرانہ، غیر جمہوری اور غیر انسانی ایکشن پلان جاری ہے۔ کشمیری قیادت سید علی گیلانی، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، اشرف صحرائی، آسیہ اندرابی، ڈاکٹر عبدالحمید فیاض سمیت لاتعداد مرکزی اور مقامی قائدین نظربند اور دور دراز بھارتی جیلوں میں بند ہیں۔ قیدتنہائی، بدترین اذیتیں اور سہولتوں سے محرومی بھگت رہے ہیں۔ آزادی پسند نوجوانوں کے گھروں کو بارود سے اڑایا جا رہا ہے۔ اسلام اور آزادی پسند سرکاری ملازمین پر جبری برطرفی مسلط کی جا رہی ہے۔ عام کشمیری کا روزگار چھن گیا ہے، نئی نسل پر تعلیم کی بندش ہے، معاشی وسائل کے تمام راستے مسدود ہیں۔ نان شبینہ کا محتاج بنانے، آزادی اور حق خودارادیت کی راہ سے ہٹانے کے لیے استعماری حکمتِ عملی فاشسٹ مودی نے جاری رکھی ہوئی ہے۔
ریاست جموں و کشمیر میں کاروباری طبقہ کے لیے نت نئی مشکلات پیدا کی جاتی ہیں، بنکوں کا نادہندہ قرار دے کر ان کی جائیدادیں اور اثاثے ضبط کیے جا رہے ہیں، مقامی آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی حکمت عملی کے تحت گزشتہ ایک سال میں 20لاکھ سے زائد غیر ریاستی انتہا پسند ہندوئوں کو ریاست کے جعلی شہری قرار دے کر آباد کیا جا رہا ہے۔ صدیوں سے آباد خاندانوں، گجربکروال برادری کے گھر تجاوزات قرار دے کر غیر قانونی، غیر انسانی بنیادوں پر مسمار کر کے چھت چھین لی گئی ہے اور شدید سردی میںلوگوں کو کھلے آسمان اور موسم و حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ آزادی صحافت کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے، بھارتی استعماری، ظلم و جبر کی حکمت عملی کی مخالفت کرنے والے اخبارات، صحافیوں کو قتل، جیل اور پابندیوں کا شکار کیا جا رہا ہے۔ سیزفائر لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی ناجائز قابض افواج کی طرف سے مستقل شہری آبادیوں پر بلااشتعال فائرنگ کے ذریعے بے گناہ شہریوں کو شہید، زخمی اور معذور بنایا جا رہا ہے۔ 
کشمیر جیسا کہ قائداعظمؒ نے فرمایا، ہماری اپنی شہ رگ ہے ایک قوم کے لیے اس سے بڑی غفلت کون سی ہو سکتی کہ اس کی شہ رگ پر دشمن کا قبضہ ہو اور اسے پھر بھی چین کی نیند آتی ہو؟ یہ ہی جذبہ، عزم اور ویژن تھا کہ قاضی حسین احمدؒ نے جماعت اسلامی اور قومی قیادت سے مشاورت کے بعد ۵؍فروری کا خصوصیت کے ساتھ یکجہتی کشمیر کے لیے اعلان کیا اور اس اعلان کو پاکستان، آزاد و مقبوضہ کشمیر میں ہر سطح اور ہر طرح سے بڑی پذیرائی ملی اور یہ ایک قومی دن کی حیثیت اختیار کر گیا۔5؍فروری 1989ء سے اب تک پی پی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق اور فوجی حکومتوں نے مسلسل پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کی۔ 5؍اگست 2019کے بعد سے ریاست جموں و کشمیر جس المناک اور فاشزم کی بدترین صورت حال سے دوچار ہے سیاسی، عسکری قیادت اور پوری قوم کو نئے جذبوں اور ولولوں کے ساتھ قومی کشمیر پالیسی پر متحد ہونا ہو گا۔ 5؍فروری یکجہتی کشمیر کے لیے:
- پوری قوم بلا امتیازسڑکوں پر نکل آئے، ریاست جموں و کشمیر کے بہادر عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرے، بھارت کے مظالم کے خلاف اپنی آواز کو پوری طاقت سے بلند کرے، کشمیریوں کی پشتی بانی کے اپنے غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا جائے۔
-ملک میں سیاسی پارلیمانی بحران شدید ہے، لیکن زندہ اور بیدار قوموں کا شیوہ ہوتا ہے کہ قومی ترجیحات پر متحد ہوں، مسئلہ کشمیر ایسا مرکز ہے جس کے گرد قومی، سیاسی، حکومتی اور عسکری قیادت کو متفقہ کشمیر پالیسی پر متحد ہو جانا چاہیے۔
-5؍اگست 2019کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بڑی حوصلہ افزا تقاریر کیں، بھارتی قیادت کو للکارا لیکن یہ المناک حقیقت ہے کہ حکومت کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر واضح وژن اور نئی صورت حال کے تناظر میں سفارتی محاذ پر کوئی ایکشن پلان نہیں، کشمیری پاکستان سے مایوس ہو گئے تو یہ پاکستان کے مستقبل کیلئے بڑا خطرناک اور ہندوستان کے لیے بڑی آسانیاں پیدا ہوں گی۔
-پاکستان کے لیے بڑا چیلنج ہے کہ اندورنی محاذ پر پوری قوم کو مسئلہ کشمیر پر متحد، یکسو اور یک جان رکھا جائے اور سفارتی محاذ پر بھارتی جھوٹ، فریب، ظلم، انسانی حقوق کی پامالی کے لیے فاشسٹ اقدامات کو بے نقاب کیا جائے یہ کام پوری قوم، پوری قومی قیادت اور پالیسی سازوں کی اجتماعی قومی ذمہ داری ہے۔
-عالمی برادری، اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں مودی سرکارکی جارحانہ حکمت عملی جس کے نتیجے میں پورا جنوبی ایشیا جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے کو لگا م دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں،اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کو یقینی بنایا جائے۔
-حکومت کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ کشمیرکے محاذ پر سرنڈر، عالمی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر مسئلہ کشمیر سے دستبرداری کا داغ اور تاثر گہرا نہ ہونے دے، کشمیر کو دوسرا سپین نہ بننے دیا جائے اس مسئلہ کے لیے جامع اورجارحانہ بین الاقوامی سفارتی مہم کا اہتمام ہو اور اقوام متحدہ میں وقفہ وقفہ گنڈے دار اور بے دلی سے نہیں پوری تیاری کے ساتھ مقدمہ کشمیر لڑا جائے۔
-نریندر مودی کی قیادت میں  ہندوستان کمزور ترین پوزیشن میں ہے، مقبوضہ کشمیر ہی نہیں بھارت کے مختلف حصوں میں بغاوت سر اٹھا رہی ہے، اقلیتیں ہندو برہمن، ہندو دہشت گردوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہیں۔ حکومتی ناکامی صرف کسانوں میں ہی نہیں ہر طبقے میں احتجاج زوروں پر ہے۔ یہ ہی مرحلہ ہے کہ بھارت پرہمہ گیر، بین الاقوامی سفارتی و قانونی دبائو بڑھایا جائے جس کے نتیجہ میں اہل کشمیر کو فوری ریلیف ملنے کے ساتھ ان کی حق خودارادیت کی جدوجہد منزل سے ہمکنار ہو سکے۔

ای پیپر دی نیشن