’’ مظلوم کشمیر‘  رُوح اؔقبالؒ !‘‘

معزز قارئین! ریاست جموں و کشمیر کی پرانی کہانی یہ ہے کہ ’’ 1846ء میں وہاں کے راجا گلاب سنگھ نے سارے کشمیر کو سستے داموں (75 لاکھ روپے میں ) ہندوستان کی انگریز حکومت کو فروخت کردِیا تھا ۔ اِس پر علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا …
’’دہقان و کشت و جُوئے و خیاباں فروختند!
قومے فروختند و چہ ، اَرزاں فروختند! ‘‘
…O…
یعنی ’’ کاشتکاروں ( کسانوں ) ، کھیتوں ، دریائوں اور باغوں کو فروخت کردِیا( کشمیری ) قوم کو فروخت کردِیا ہے اور کتنا سستا فروخت کردِیا ؟‘‘  علاّمہ اقبالؒ کے آبائو اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا ۔ آپ ؒ  نے اپنی ایک فارسی نظم میں ’’کشمیر‘‘ کے عنوان سے اہلِ جہاں کو کشمیر جنت نظیر  کے دورے کی دعوت دِی تھی جس کا اُردو ترجمہ یوں ہے ۔
’’٭  کشمیر کا سفر اختیار کر اور پہاڑ، ٹیلے اور وادیاں دیکھ ہر طرف اُگا ہُوا سبزہ اور ہر چمن میں کِھلا ہُوا لالہ دیکھ۔ ٭ بادِ بہار کی موجیں دیکھ ، طائرانِ بہار کے پرے کے پرے دیکھ، اناروں کے درخت پر قمریوں اور فاختائوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ دیکھ۔ ٭ دیکھ ! زمین نے اپنا چہرہ نسترن کے بُرقع میں چُھپالِیا ہے تاکہ اِس کی زینت پر آسمانِ فتنہ باز کی نظر پڑے۔ ( اسے نظر نہ لگ جائے ) ۔٭ دیکھ خاک سے گلِ لالہ اُ ٹھا ( گویا) خاک کے اندر شرارے چمکے، ندی کے اندر موج تڑپی، جس سے پانی پر شکنیں پڑ گئیں۔ ٭ مِضراب سے تارِ ساز چھیڑ، جام میں شراب ڈال، دیکھ ، بہار کا قافلہ ہر انجمن میں ( ڈیرہ ڈالے ) ہے۔٭ لالہ رُخ اور سیمیں بدن دخترکِ برہمن کے چہرے کی طرف نظر اُٹھا پھر اپنے اندر نگاہ ڈال‘‘۔ اُس دَور کے کشمیر کی محکموی و مجبوری اور فقیری پر افسوس کا اظہار کرتے ہُوئے علاّمہ صاحب ؒنے کہا کہ …؎
آج وہ کشمیر ہے ، محکوم و مجبور و فقیر!
کل جِسے اہلِ نظر کہتے تھے ، اِیرانِ صغیر!
آہ یہ قوم ِنجیب و چرب دست و تردِماغ!
ہے کہاں روزِ مکافاتِ اے خُدائے دیر گِیر!
…O…
معزز قارئین ! لیکن افسوس کہ ’’ علاّمہ اقبالؒ تو قیام پاکستان سے قبل ہی 21  اپریل 1938ء کو اور بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ بھی 11 ستمبر1948ء کو خالق حقیقی سے جا ملے تھے جنہوں نے کشمیر کو پاکستان کی ’’ شہ رگ ‘‘ قرار دِیا تھا ۔ پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی ’’فرزندان و دُخترانِ پاکستان ‘‘ خوبصورت باغوں میں علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے مجسمے سجاتے ہیں ۔16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دو لخت ہُوا تو اُسکے بعد بھی ہمارے حکمران اور سیاستدان عام جلسوں میں علاّمہ اقبالؒ کے اشعار اور قائداعظمؒ کے اقوالِ زریں سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ’’ حق خود ارادیت ‘‘ دِلوانے اور کشمیریوں کی آزادی کے اعلانات بھی کرتے ہیں لیکن آج بھی علاّمہ اقبالؒ کا یہ مصرعہ کہ … ؎
’’ آج وہ کشمیر ہے ، محکوم و مجبور و فقیر!‘ ‘
…O…
آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر ، پاکستان اور دُنیا بھر میں آباد کشمیری قوم آج یہ سوچ رہی ہو گی کہ ’’ جنت اُلفردوس میں رُوحِ اقبالؒ  کی کیاکیفیت ہوگی ؟۔
معزز قارئین ! حسب سابق 5 فروری کو (آج )آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر اور پاکستان سمیت دُنیا بھر کے کشمیریوں اور پاکستانیوں کی طرف سے بھارت کی غلامی کی زنجیریں توڑنے کی جدوجہد کرنے والے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کیلئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا اعلان کِیا گیا ہے ۔ صدرِ پاکستان عارف اُلرحمن علوی صاحب ، وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب ، پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ ، جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے مختلف قسم کے پروگرامات کا بھی اعلان کِیا گیا ہے ، لیکن اہم بات یہ ہے کہ ’’ یوم یکجہتی کشمیر اور اِنسانی ہاتھوں کی زنجیر سے پہلے "P.H.A"( Parks and Horticulture Authority Lahore )کے افسرانِ بالا و ادنیٰ کی طرف سے ایک ایسی غلطی ہوگئی ہے جس کی وجہ سے علاّمہ اقبالؒ کے نام پر لاہور کے ’’ گلشن اقبال پارک ‘‘ میں نصب کئے جانے والے ’’ مجسمۂ علاّمہ اقبالؒ  ‘‘ نے کچھ اچھے تاثرات نہیں دئیے ۔ 
الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں مجسمہ سازوںکو بھونڈا اور اناڑی انداز دِکھانے کا مرتکب کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ’’ یہ مجسمہ علاّمہ اقبال ؒ  کا نظر ہی نہیں آ رہا ور مجسمہ دیکھ کر علاّمہ اقبالؒ کی رُوح تڑپ رہی ہوگی‘‘ لیکن "P.H.A" کے چیئرمین یاسرؔ گیلانی کا بیان ہے کہ ’’ باغ کے ’’مالیوں ‘‘(Gardeners) نے علاّمہ اقبالؒ سے عقیدت اور محبت کی وجہ سے یہ مجسمہ سازی کی ہے!  ‘‘ ۔گیلانی صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ "P.H.A" نے اِس مجسمہ کو منظور نہیں کِیا اور نہ ہی مالیوں کو اُس کا کوئی معاوضہ دِیا ہے ۔
’’کون سے گیلانی ؟ ‘‘ 
معزز قارئین! مجھے نہیں معلوم یاسرؔ گیلانی صاحب کا کوئی سابق وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی صاحب سے کوئی تعلق ہے یا مقبوضہ کشمیر کے ایک راہنما سیّد علی شاہ گیلانی صاحب سے ؟ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ’’اُنہوں نے اپنی "Authority" میں پارک کے مالیوں کودخل در معقولات کا اختیار کیسے دے دِیا؟ درویش شاعر حضرت بیدم وارثی  ؒ(1876ئ۔ 1936ئ)نے بھی اِسی طرح کے ایک مالی ؔکا تذکرہ کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …؎
’’یوں گلشن ہستی کی مالی ؔنے بنا ڈالی‘‘
پُھولوں سے جُدا کلیاں ،کلیوں سے جُدا  ڈالی!‘‘
…O…
یاسرؔ گیلانی کے لئے بہت پہلے اُستاد شاعر راز ؔالٰہ آبادی بھی کہہ گئے تھے کہ … 
’’ زخم پتّہ پتّہ ہے ، دَرد ، ڈالی ڈالی ہے! 
اے مرے چمن آخر ، کون تیرا مالیؔ ہے! ‘‘ 

ای پیپر دی نیشن