ہندوتوا اور پراکسی وار

Feb 05, 2022

فیصل اظفر علوی

ہمسایہ ملک بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ بھارت کا یہ ہتھکنڈا خطے میں امن عمل کو سبوتاژ کرنے اور اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ خبر کے مطابق پاک فوج نے دہشت گردوں کا بڑا حملہ ناکام بناتے ہوئے 13دہشت گرد ہلاک کردیئے جبکہ ایک افسر سمیت پاک فوج کے 7 اہلکار شہید ہوئے۔ دہشت گرد افغانستان اور بھارت میں ہینڈلرز کے ساتھ رابطے میں تھے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق نوشکی اور پنجگور میں ہونے والے حملوں میں 13دہشت گرد مارے گئے، سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے دونوں حملے ناکام بنائے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے علاقوں میں کلیئرنس اور سرچ آپریشنز بھی کئے۔ نوشکی میں دہشت گردوں کا حملہ ناکام بناتے ہوئے9 دہشت گرد مارے گئے جبکہ حملے میں ایک افسر سمیت 4 اہلکار شہید ہوئے۔ہمیشہ کی طرح پاکستان کی ترقی کو گزند پہنچانے کیلئے دہشتگردانہ کارروائیوں کے تانے بانے اس مرتبہ بھی افغانستان کے راستے بھارت سے جا ملے ہیں۔ پاک فوج کے جوانوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اگرچہ دشمن کا منصوبہ خاک میں ملا دیا لیکن اپنی جان بھی جان آفریں کے نام کر گئے۔ پاکستان اپنے قیام سے لیکر اب تک اندرونی و بیرونی خلفشار سے نبرد آزما ہے ۔ بیرونی محاذ پر وطن عزیز کو سب سے زیادہ نقصان ہمسایہ ملک نے پہنچایا ۔ بھارت کی موجودہ قیادت پاکستان  دشمنی میں اپنے تمام تر حواس کھو چکی ہے ۔ اگرچہ موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریند مودی کا بھارتی انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس سے براہ راست کوئی تعلق نہیں لیکن وہ آر ایس ایس کی خواہشات اور’’ہندوتوا‘‘ نظریے پر عمل پیرا ہونے میں  کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتے۔ ’’ہندوتوا ‘‘ہندو قوم پرستی میں انتہا پسندی کی حد تک چلے جانے کا اصطلاحی نام ہے۔ یعنی ہندو قومیت کی بالادستی کا متشدد نظریہ ۔ ’’ونائیک دمودر سورکر‘‘ نے 1923ء میں اس اصطلاح کا پرچار کیا تھا۔قوم پرست ہندو رضاکار تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ، وشو ہندو پریشد اور ہندو سینا نے اس نظریے کو ’’بام عروج‘‘ پر پہنچا دیا۔ چند بائیں بازو کے سماجی سائنسدانوں نے ہندوتوا کو انتہائی درست اور نظریہ قوم پرستی، اکثریت متجانس و بالادستی ثقافت کے مطابق قرار دیا ہے ۔ یہی وہ اصطلاح جس کو بنیاد بنا کر دنیا بھر میں ہندو قوم اسلام اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ تحقیق کئے بنا حقائق کو مسخ کرکے بنا دلائل بات کرتا ہے۔ اس مقصد کیلئے سب سے آسان ہتھیار ’’ہندوتوا‘‘ کا استعمال ہے جس میں بڑی آسانی کے ساتھ عوام کو مذہبی طور پر اشتعال دلاتے ہوئے نفرت کا ماحول پیدا کرکے اپنے مذموم مقاصد پورے کئے جاتے ہیں۔ 
 ٹیکنالوجی میں روز بروز جدت کی وجہ سے اگرچہ اب روایتی جنگوں کا راستہ رک گیا ہے لیکن ہمسایہ ملک کے متشدد نظریات اور پالیسیاں خطے کو آگ میں جھونک سکتی ہیں۔ پاکستان نے خطے کا امن برقرار رکھنے کیلئے ہمیشہ دفاعی انداز اختیار کیا ہے لیکن اسے ہمارے کمزوری گردانا گیا۔ دور حاضر ’’پراکسی وار‘‘ کا دور ہے۔پراکسی کا مطلب نیابت یا قائم مقام ہے۔یعنی سادہ الفاظ میں کسی دوسرے کے ذریعے اپنا کام کروانا جس میں ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے دشمن کو ہم پر سبقت حاصل ہے اور شاید اس سبقت کی وجہ دشمن کی عددی برتری بھی ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے اور اس صدی میں دنیا نے یکسر تبدیل ہو جانا ہے۔ اس سائنسی انقلاب کے دور میں اقوام عالم کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں اندرونی ریشہ دوانیوں سے نکل کر تحقیق، تعلیم اور تکنیک پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی سے واقفیت اور اس کے درست اور بروقت استعمال سے ہی ہم کسی پراکسی وار کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ کے سامنے ’’پراکسی وار‘‘ کی سب سے بڑی مثال بھارتی شدت پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنکھ (آر ایس ایس) ہے جس کی شدت پسندانہ کارروائیاں دنیا بھر کے سامنے ہونے کے باوجود ان کی مذمت نہیں کی جاتی۔ مسئلہ کشمیر پر بھی بھارت ’’پراکسی وار‘‘ کا ہتھیار استعمال کر رہا ہے ۔ پاکستان کا امن برباد کرکے بھارت الٹا پاکستان پر یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ پاکستان ’’درپردہ‘‘ جنگ کر رہا ہے۔ اس حوالے سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کے دورہ کے موقع پر کی گئی تقریر ریکارڈ پر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم کشمیر اور دنیا بھر کے مظلومین کا مقدمہ اپنی بساط کے مطابق بہترانداز میں لڑ رہے ہیں لیکن ہمیں اس ’’بہتر‘‘ کو بہترین کرنا ہوگا ۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس قومی ٹی وی چینل کے علاوہ کوئی بھی انگریزی ٹیلی ویژن چینل نہیں۔ ہمیں اپنے ذرائع ابلاغ کو فوری طور پر ’’اپ گریڈ ‘‘ کرنا چاہئے۔ ہمیں بھارت کے منفی پراپیگنڈہ کا جواب پراپیگنڈہ سے دینا ہوگا جس کیلئے ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ ہم اگر دنیا کے سامنے اپنا بیانیہ پیش کرنے میں پیچھے رہ گئے تو ہمیں مزید ناقابل تلافی نقصانات اٹھانا ہوں گے۔ آخر میں ہمدم دیرینہ فرحت عباس شاہ کی غزل کے چند اشعار 
کہتا ہے پرندے بڑے آزاد ہیں لیکن 
زنجیر کی جھنکارہے دیوار کے اْس پار
تقسیم ہوا دل تو ادھر شہر خموشاں 
اور شہر عزادار ہے دیوار کے اْس پار 
یا کھیل کوئی اور خطرناک ہے جاری 
یا کوئی مرا یار ھے دیوار کے اْس پار

مزیدخبریں