عیشتہ الرّاضیہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
عورت دیکھنے میں تو صنف نازک ہے لیکن اگر یہ اپنے حق کے حصول کے لیے ڈٹ جائے تو یہ سیسہ پلائی دیوار بن کر عظم و ہمت کا پیکر بن جاتی ہے، پھراس کی گود سے ایسے ایسے بہادر جنم لیتے ہیں جو آگے جا کر قوم کا مقدر بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ اس کا روپ چاہے ماں کا ہو، بہن کا یا بیوی کا اگر اس کا ہاتھ کسی مرد کے پیچھے ہو تو وہ مرد کامیابی کے راستوں پر گامزن ہو جاتا ہے۔مقبوضہ کشمیر کے لوگ کئی دہائیوں سے قابض انڈیا کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ان مظالم کا نشانہ وہاں کے مردوں کے ساتھ ساتھ بچے اور خواتین بھی ہیں۔
تقریبا کوئی ایسا گھر باقی نہیں رہ گیا جہاں کسی شہید کی بیوہ نہ ہو،جہاں کوئی ماں اپنے لاپتہ بیٹے کا انتظار نہ کر رہی ہو۔ان کے عظم کا عالم یہ ہے کہ اگر گھر کا ایک فرد شہید ہو جائے تو اس گھر کی عورت اپنا دوسرا بیٹا بھی آزادی کی راہ پر نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ان کے اس حوصلے اور ہمت کو خراج پیش کرنے کے لیے نوائے وقت نے 5 فروری کے موقع پر پاکستان کی نامورخواتین سیاسی لیڈران سے خصوصی گفتگو کی ہے جو نذر قارئین ہے۔
مسرت جمشید چیمہ
(رکن پنجاب اسمبلی، سیکرٹری اطلاعات وسطی پنجاب پاکستان تحریک انصاف اور چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ)
یہ دنیا کے لیے نہایت تشویش ناک بات ہونی چاہیے کہ جب ہر جگہ انسانی حقوق کی بات کی جا رہی ہے ،وہیں مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج کے آگے نہتے کشمیری آئے روز جان دے رہے ہیں۔ لیکن دنیا اس درندگی پر خاموش ہے۔ بلی کے بچے کے حقوق پر عالمی ایجنسیاں متحرک تو ہو جاتی ہیں البتہ انہیں روتی بلبلاتی وہ کشمیری مائیں ، بہنیں، بیویاں نظرنہیں آرہیں جو ہر روز نہ جانے کتنے جوانوں کے جنازے پر ماتم کر رہی ہیں۔ کویڈ 19 کے آنے کے بعد جب دنیا بھر میں لاک ڈائون لگ گیا،دفاتر،مارکیٹ،سکول ،ٹرانسپورٹ بند ہو گئی تب دنیا ایک بار کشمیریوں کی حالت زار کا اندازا لگا لے جو ایک لمبے عرصے سے زبردستی گھروں میں بند ہیں، جن کے اپنے گھر ان کے لیے جیل بن گئے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے اور لبرل ہونے کی دعوے دار ریاست انڈیاکی کشمیر میں بربریت پر عالمی دنیا کیوں خاموش ہے، اگر انٹرنیشنل لیول پر ’’بائیکاٹ انڈیا‘‘ مہم چلائی جائے توبھارت ضرور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گا اوراقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر یقینا حل ہو پائے گا۔
عظمی زاہد بخاری
(رکن پنجاب اسمبلی ،ترجمان پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب)
کشمیری خواتین اس قدر ظلم و ستم کے باوجودبا ہمت ہیں کہ ان کے اس حوصلے اور عظم کی نظیر پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس حکومت نے خاص طور پر 5 اگست کے واقع کے بعد نہایت بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے اور انٹر نیشنل لیول پر بھی دنیا کو یہ احساس نہیں دلا سکی کہ کشمیریوں کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیاہے۔
کشمیر کو پاکستان کا اٹوٹ انگ کہا جاتا تھا،اس کی وہ حیثیت بھی انڈیا نے چھین لی ہے،یہی وجہ ہے کہ بھارت کے مظالم میں مزید اضافہ ہوا ہے۔اس حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ یہ اس اہم مسئلے کو اقوام عالم اور اقوام متحدہ کے اندر واضح کرنے میںسفارتی طور پر ناکام ہوگئے ہیںچنانچہ اس مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ لائحہ عمل بننا چاہیے،کیونکہ ہم کشمیری خواتین اور کشمیری عوام کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے،ہمارے غم اور خوشیاں سانجھی ہیں۔ان کی ہر تکلیف پر ہمارے دل رنجیدہ ہیں۔
ثمینہ خالد گھرکی
( صدرپیپلزپارٹی ویمن ونگ پنجاب )
میں سمجھتی ہوں کہ کشمیر کی خواتین نے اپنی ہمت اور حوصلے سے ثابت کیا ہے کہ ان کی آزادی تحریک پرکسی بھی قسم کا ظلم اثر انداز نہیں ہو پائے گا، اور وہ کسی صورت بھی پیچھے نہیں ہٹیں گی۔تقریبا ہر دن ان پر ظلم ڈھایا گیا، لاک ڈائون میںان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا،گھروں میں قید تھیں، بچوں اور خواتین ساتھ زیادتیاں،حاملہ خواتین پر مظالم،ان کے بیٹوں،شوہروں،بھائیوں کو قابض افواج اٹھا لے گئے،لیکن یہ خواتین پھر بھی ڈٹی رہیں۔میں سمجھتی ہوں کہ ان خواتین کو جتنا بھی خراج عقیدت یا خراج تحسین پیش کریں کم ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے جب کشمیریوں کی آزادی کے لیے پہیہ جام ہڑتال کی تھی،تب سے آج تک پیپلز پارٹی کشمیری عوام کی آزادی جدو جہد میں ان کیساتھ کھڑی ہے۔
ڈاکٹرسمیحہ راحیل قاضی
(ڈائریکٹر امور خارجہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین، صدرانٹرنیشنل ویمن یونین )
میرا کشمیریوں کی آزادی تحریک کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ تحریک مجھے ورثے میں ملی، میرے والد صاحب قاضی حسین احمد نے سب سے پہلے 1990 میں 5 فروری کے دن کو ہر سال یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔جسے بعد میں پاکستان کی تمام سیاسی طبقوں نے اپنایا اور آج ہم سب مل کر اس دن کشمیریوں کی آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں اور اس پیغام کو پوری دنیا میں پھیلاتے ہیں کہ انشاء اللہ ایک نہ ایک دن کشمیری ایک آزاد فضا میں سانس لیں گے۔
جماعت اسلامی نے تمام انٹر نیشنل پلیٹ فارمز پر کشمیری خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ان کی آبرو ریزی اور عصمت دری کے خلاف ہر انٹر نیشنل پلیٹ فارم پراحتجاج کیا۔مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے ساتھ ایک بڑا المیہ Half Widow ہے۔ یعنی ایسی عورتیں جن کے شوہر لمبے عرصے سے بھارتی افواج کے ہاتھوں گمشدہ ہیں۔ نہ ان کے زندہ رہنے کی خبر ہے نہ شہید ہونے کی اطلاع۔اسی وجہ سے یہ عورتیں اور ان کے بچے وراثت سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔دنیا بھر کی مظلوم مسلمان خواتین خاص کر کشمیری اور فلسظینی خواتین کے حقوق کی ترکش تنظیم جس کی سرپرست اعلی ترکی کی خاتون اوّل ہیں،پاکستان سے اس تنظیم کی میں ممبر ہوں جہاں میں کشمیری اور فلسطینی مائوں،بہنوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کر رہی ہوں۔
مہرین ملک آدم
(سینٹرل انفارمیشن سیکرٹری پاکستان مسلم لیگ
ق)
کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہونے کے باعث ہر 5 فروری ہم مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں ۔ایک عورت ہونے کے ناطے میں مقبوضہ کشمیر کی خواتین کو سلام پیش کرتی ہوں کہ وہ اپنے بیٹوں ،شوہروں،بھائیوں کیساتھ شابشانہ کھڑی ہیں اور ان کا حوصلہ بڑھا رہی ہیں۔ہر ماںآزادی کے لیے اپنا بیٹا شہادت کی راہ پر روانہ کر رہی ہے۔ایک مسلمان عورت کا یہی زیور ہے کہ وہ حق کی راہ میں ڈٹ کر کھڑی رہتی ہے۔انہیں ڈرانے دھماکنے اور بعض رکھنے کے لیے قابض بھارتی افواج اپنی حوس کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں ،حیرت اس بات پر ہے کہ اقوام عالم کو یہ بد ترین مظالم نظر نہیں آرہے۔ہماری دعائیں اور نیک خواہشات کشمیری خواتین کے ساتھ ہیں۔