5فروری یوم یکجہتی کشمیر کا یہ دن1990ء میں پہلی مرتبہ قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کی کال پر پاکستان اور آزاد کشمیر سمیت پوری دنیا میں مقیم پاکستانی و کشمیری باشندگان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کے خلاف منایا تھا۔ یہ دن ہر سال بھارت کے ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے خلا ف بطور احتجاج منایا جاتا رہا ہے مگراس وقت یہ دن کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے طور ایسی صورت حال میں آیا ہے کہ 3سال قبل 5اگست 2019ء میں نریندر مودی کی حکومت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35Aاور 370کے تحت کشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کرکے پورے خطے میں فوج، پولیس اور پیر املٹری ٹروپس کے ذریعہ ظلم و ستم میں بڑے پیمانے پر اضافہ کردیا ہے۔اس دوران کشمیری قوم کے ہر دلعزیز حریت راہنماؤں سید علی شاہ گیلانی اور اشرف صحرائی کی شہادتوں کے بعد ان کے جنازوں کے موقع پر پوری قوم کو سخت کرفیو اور دیگر شدید قسم کی پابندیوں میں جکڑ کر اپنے قائدین کے جنازے پڑھنے اور ان کی تکفین و تدفین کے عمل سے دور رکھا گیا۔ انسانی حقوق کی اس بد ترین خلاف ورزی کو پوری دنیا نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا مگر بھارت کے بھیانک طرز عمل کی مذمت نہیں کی گئی۔ جس سے شہ پا کر بھارت نے اپنی فوجی قوت کے ذریعے انتہائی ڈھٹائی سے بربریت کی نئی داستانیں رقم کر رکھی ہیں۔طویل ترین لاک ڈاؤن سے کشمیریوں کی تمام تر زندگی کے معمولات مفلو ج ہیں، ہزاروں بچے کسی نہ کسی طور پر معذور ہیں، ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا،ہزاروں خواتین کو بیوہ،بچوں کو یتیم اور بوڑھوں کو شہید کردیا گیا۔کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں لیکن عالمی تنظیمیں خاموش ہیں، اس خاموشی کے تدارک کے لیے ہم یک جان ہوکر کشمیریوں کی آزادی کے لیے ڈٹ جائیں۔ ہمیں ہرحال میں اس جدوجہد کا ساتھ دینا اور قربانیاں دینی ہیں۔مودی حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے کشمیریوں کے حقو ق سلب کرنے کی جو مذموم کوشش کی، اس سے تحریک آزادی کشمیر پوری دنیا میں اجاگر ہوئی ہے۔ بھارتی انتہا پسند حکمرانوں نے مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کررکھا ہے تاکہ بھارت کا قبضہ مستحکم ہوسکے ۔بھارت کے کشمیریوں پر مظالم کے74سالوں پر محیط طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ان پر مظالم میں کمی آنے کی بجائے عرصہ حیات کو مزید تنگ کیا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں 5فروری 2022ء کا یہ دن ایک مرتبہ پھر ہمیں خصوصاً پاکستانی قوم اور حکمرانوں کو کشمیر کے حوالے سے اپنے فرائض یاد دلاتا ہے کہ ہم دیرنیہ قومی موقف کے تحت اہل کشمیر کے مضبوط پشتیبان رہیں اور بھارتی مظالم کے خلاف آواز بھی بلند کرتے رہیں اور دنیا کو بھی اس کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا توبلا شبہ ہے ہی لیکن یہ عصرحاضر کے چند اہم ترین سیاسی اورا نسانی مسائل میں سے ایک نہایت تکلیف دہ مسئلہ بھی ہے۔ کشمیر کی بے پناہ مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے ہمیں اس وقت اپنے سامنے یہ سوال رکھنا چاہیے کہ بطورریاست اور من حیث القوم ہم ایسے کیااقدامات اٹھاسکتے ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے کشمیر ی بھائیوں کی بھرپور حمایت کر سکیں۔
وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ حکومت پاکستان میڈیا اور سفارت کاری کے ذریعے اصل صورتحال اور سنگینی کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرے تاکہ بھارتی میڈیا کا مقابلہ کر کے کشمیری عوام کے موقف کی صحیح ترجمانی ہوسکے۔ کشمیری عوام ریاست جموں و کشمیر کو ناقابل تقسیم وحدت سمجھتے ہیں۔ کشمیری عوام کے لیے وہی حل قابل قبول ہو گا جو کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحد ہ کی قراردادوں کے مطابق ہو گا اور یہی اس کادیر پا اور پائیدار حل ہو گا۔ حکومت پاکستان بالخصوص اور عالم ِ اسلام بالعموم ہر قسم کی مصلحت کو چھوڑ کر اہل کشمیر کا سنجیدگی سے ساتھ دے۔ یہی 5فروری 2022ء کا یوم یکجہتی کا پیغام ہے۔