کشمیر،عمران خان اورعبدالقیوم نیازی

 ایک نغمہ لکھاتھا حبیب جالب نے جوریاض شاہد کی فلم"یہ امن"میں کشمیرکی آزادی کے لئے اس جنت زار کے لوگ آزادی کی تڑپ لئے مل کرگاتے ہیں توسننے والوں کی آنکھیں بھی بھر آتی ہیں
واپس کردے مجھ کو میرے خوابوں کی تعبیر
اے میرے کشمیر
توہی بتادے کب ٹوٹے گی پائوں کی زنجیر
اے میرے کشمیر
کشمیر کو ایک عالمی مسئلہ کے طورپر اجاگر کرنے کیلئے لاکھوں لوگ خون میں نہاگئے ۔بہت سے معذور ہوگئے ۔مگر آج بھی اس مسئلہ کولئے عالمی دنیا کو متوجہ کررہے ہیں ۔پاکستان میں بھی ہر سال یوم کشمیر5 فروری کومنایا جاتا ہے۔مگر اب گذشتہ دودہائیوں سے یہ محض ایک رسم سی بن کررہ گئی ہے۔وہ جذبہ ،ولولہ ۔ہمہمہ اور جوش وجذبات سے بھر پور صدائیں اب اس طرح سنائی نہیں دیتیں جیسے 1990ء کی دہائی میں تھیں۔یہاں مجھے یاد آیا کہ ملک بھر میں ہر ضلعی یاڈویثرنل سطح پر "پاکستان نیشنل سینٹر"ہواکرتے تھے۔ان سینٹرز میں ہر موضوع اور موقع پر سیمینار کرائے جاتے۔مقامی اور کبھی کبھی بیرون شہر سے موضوع کی نسبت سے دانشوروں اور ماہرین کوبلایا جاتا جو اپنے اپنے انداز میں سننے والوں کے ذہن وفکر کی غذاء مہیا کرتے ۔ہرسال "یوم یکجہتی کشمیر"کے موضوع پر سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء بھی کشمیر کے موضوع پر پرجوش تقریریں کرتے اور نظمیں پڑھتے جس سے کشمیر ایک بار پھر دلوں میں زندہ ہوجاتا۔یہ نیشنل سینٹر ز ضیاء الحق کے سیاہ دورمیں بھی موجود رہے،حالانکہ انہیں پیپلز پارٹی کے دورحکومت میںقائم کیاگیا تھا۔مگر جب نوازشریف کے ہاتھ حکومت لگی تویہ سینٹر زبند کردیئے گئے اور پھریہ مستقلاً بند ہوگئے۔ان میں موجودبے شمار کتابیں اور فرنیچر کون لے گیا ،آج تک کسی کوپتہ نہیں چل سکا۔"پاکستان نیشنل سنٹرز" ایک المیہ بن کرختم ہوگئے۔یہ سینٹرز کچھ یوں یاد آئے کہ یہ90ء کی دہائی کے وسط کی بات ہوگی۔میں نیویارک میں مقیم تھا اور ستمبرکامہینہ شروع ہونے والا تھا۔ماہ ستمبر نیویارک میں عالمی طورپر بڑامتحرک ہوتا ہے کیونکہ اقوام متحدہ کاادارہ (یو این او)یہاں موجود ہے۔ہر ملک کا سربراہ یا اسکے نمائندے آکر ہر مسئلہ پر بات کرتے ہیں۔پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ اس موقع پر مسئلہ کشمیر کواجاگر کرے اور انڈیا نے ہمیشہ کوشش کی کہ اسے جنرل اسمبلی کے ایجنڈے پر نہ آنے دیاجائے۔اقوام متحدہ کے اندر اس موضوع پر تقاریر ہورہی ہوتی ہیں اور باہر کا منظر کچھ یوں ہوتا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں کشمیری آزادی کے نعرے بلند کررہے ہوتے ہیں۔ان کے بیوی بچے بھی ساتھ ہوتے ہیں ۔جب تک اجلاس جاری رہتا ہے کئی کئی دن تک یہ لوگ بیرونی پارک میں انڈیا کے خلاف احتجاج کررہے ہوتے ہیں۔ان کے ساتھ یکجہتی کے طورپر پاکستان کے لوگ بھی اپنے اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر شامل ہوتے ہیں ۔پاکستانیوں کی تعدادبھی کشمیر یوں کے برابر ہوتی ہے ۔ایک طرف سے سکھوں کادستہ برآمدہوتا جوخالصتان کی حمائت میں پرجوش ہو کر نعرہ زن ہوتاہے اور جونہی انہیں انڈیا کے خلاف آزادی کشمیر کیلئے ہاتھوں میں علم اٹھائے پاکستانی اور کشمیر ی نظرآتے ہیں ان کی حمائت میں بھی خوب خوب نعرے بلند کرتے ہیں۔دنیا کی ہر وہ قوم جو آزادی وطن کے خواب دیکھتی ہے ان کی تعبیر کیلئے اقوام متحدہ کے سامنے اظہار کرتے نظر آتی ہے۔
ذکرہورہا تھا ماہ ستمبر کے اس اوائل کاجب چند دنوں بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہونے والا تھا۔میں نیویارک میں ہی مقیم تھا ۔میں نے رانا رمضان کے ساتھ پروگرام بنایا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل نیویارک میں موجود مسلم دنیا کے سفارت کاروں سے مل کرانہیں اس مسئلہ سے آگاہی دی جائے ۔سب سے پہلے ترکی کے قونصل جنرل سے ہماری ملاقات دوگھنٹے جاری رہی مگر مطلوبہ اعداد وشمار چونکہ ہمیں ازبر نہ تھے اس لئے یہ ملاقات کشمیر سے یکجہتی کے موضوع پر ختم ہوگئی اگلے روز مصر کے قونصل جنرل سے ملنا ہوا، جنہوں نے اپنے پریس منسٹر کی ذمہ داری لگائی کہ کشمیر سے متعلق جتنا مواد ہمارے پاس موجود ہے اسے مصر کے تمام اخبارات میں شائع کرانے کا بندوبست کیا جائے۔ یہاں یہ مسئلہ رہا کہ ہمارے پاس شہدائے کشمیر کے مستنداعدادو شمار نہیں تھے۔وہاں سے ہم سیدھاپاکستان قونصلیٹ گئے تو افسوس ہواکہ وہاں بھی ہمارے دعوئوں کے باوجود تصویری یاتحریری مواد مطلوبہ تعداد میں دستیاب نہیں تھا۔اور یوں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر حسب معمول ایک عدد مظاہرہ کرکے ہم واپس آگئے۔اس کے چند ماہ بعد پاکستان واپس پہنچا تو وزیر اعظم آزادکشمیر سردارعبدالقیوم خاں سے وقت لے کر انہیں اسلام آبادمیں کشمیر ہائوس ملنے گیا۔سردار صاحب نے ناشتے پر اچھی تواضع کی اپنی اعلی کمان کو انہوں نے وہاں طلب کیا ہوا تھا۔میں نے تجویز پیش کی کہ نیویارک ،لندن ،جدہ یاکم از کم نیویارک میں "کشمیر سنٹر"کا قیام عمل میں لائیں ۔انہوں نے حسب روائت اس تجویز کوسنا اور پھر کسی پہاڑ پر پڑی ہوئی برف میں اسے دفنا دیا۔ کشمیر سنٹر کا قصہ یوں تما م ہوا۔وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعظم آزادکشمیر عبدالقیوم نیازی صاحب سے اپیل ہے کہ وہ تجویز جسے نواز شریف ،سردار عبدالقیوم اور دیگر مقتدر لوگوں نے تو قبول نہ کیا۔ہوسکے توآپ پاکستان نیشنل سنٹر ز کو بحال کریں یاپھر نیویارک ،لندن اور دنیا کے قابل ذکرشہروں کے علاوہ پاکستان کے بڑے شہروں میں "کشمیر سنٹر"قائم کردیں۔یہ میراہی ،نہیں کشمیر کے حریت پسندوں اور شہداء کے خون کا مطالبہ سمجھ لیں۔
پس تحریر!
امریکہ میں مقیم ہمارے دوست معروف صحافی ارشد چوہدری گذشتہ دنوں کرونا کاشکار ہوئے اوربیوی بچوں کے علاوہ ہزاروں دوستوں کو روتاچھوڑکردنیا چھوڑ گئے۔وہ روزنامہ پاکستان لاہور کے امریکہ میں نمائندہ تھے۔بہت ہردلعزیزاوردوستوں کی محفلوں اور مجلسوں کی جان تھے۔اللہ مغفرت فرمائے،امین

ای پیپر دی نیشن