کراچی (اسٹاف رپورٹر) وفاقی اردو یونیورسٹی ، شعبہ خرد حیاتیات کے تحت ہونے والے سیمینار سے سینٹر فار کوالٹی سائنسز کے چیف سائنٹفک آفیسر مشہور ماہر ادویات ڈاکٹر عبید علی نے اعتماد کے بحران کو المیہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کلینیکل ٹرائلز میں مفادات کا تصادم اور تعصبی رویہ تشویشناک حد تک بڑھ چکا۔ اکثر دعوے اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حیاتیاتی طریقہ کار ، ادویات اور دیگر طبی مداخلت سے وابستہ پیچیدہ ردعمل کے بارے میں ناکافی کمزور معلومات کی وجہ سے پیشنگوئی اور تشریح غیر یقینی صورتحال پیدا کرتی ہے۔ پچھلے دو دہائیوں سے اعتماد کی قلت اور وعدہ یا دعویٰ کی پاسداری ایک گہرا سوال ہے۔ سائنس میں سب سے اہم اور نازک چیز سائنسی طریقہ کار ہے۔ دنیا میں مرنے کی تیسری بڑی وجہ طبی غلطیاں ہیں۔ ’ہر چھبیس تحقیق میں سے نو تحقیق غلط ثابت ہوتی ہے‘۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ مشہور امریکی کمپنی کی دوا کوکس 2 تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار افراد کی موت کا سبب بنی۔ انہوں نے مفادات کے تصادم ، تقسیم یکسانیت پر تنقیدی روشنی ڈالی۔سیمینار کے منتظم اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ خرد حیاتیات سکندر خان شیروانی نے سیمینار کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے اس بات پر زور دیاکہ موجودہ antibiotics اور دیگر ادویات بیماریوں کے خلاف موثر نہیں لہٰذا نئی ادویات پر تحقیق وقت کی ضرورت ہے۔کلینیکل ٹرائل سے گزر کر دوا کا بننا اور ایک اچھی دوا کی جانچ اور دریافت کے ایجاد سے لے کر مختلف مراحل سے گزر کر دوا جب مارکیٹ تک پہنچتی ہے تو اس سے متعلق تمام معلومات ریسرچ کرنے والے طلباءو طالبات کو معلوم ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحقیق ثابت کر رہی ہے کہ antibiotics اور دیگر ادویات مختلف بیماریوں کے لیے اب مو¿ثر ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔سیمینار میں مائیکرو بائیولوجی کے طلباءو طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔قائم مقام رجسٹرارپروفیسرڈاکٹر زرینہ علی نے سکندر شیروانی کی کاوشوں کو سراہا۔ اور طلباءو طالبات کی حوصلا افزائی کی کہ وہ تحقیق کے میدان میں ایکسپرٹ کی مدد سے بہتر کارکردگی کر سکتے ہیں تاکہ جدید تقاضوں کے حساب سے نئی ادویات بن سکیں اور پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پایا جا سکے۔سیمینار کے اختتام پروفیسرڈاکٹر زرینہ علی نے اسپیکر اور منتظمین کو سرٹیفکیٹ پیش کیے۔
اینٹی بایوٹکس ادویات