تاریخ آج پھراپنے آپ کودہرا رہی ہے۔ کشمیری عوام مقبوضہ وادی میں بھارتی جبروتسلط کیخلاف پاکستان‘ بھارت اور دونوں جانب کی وادی کشمیر سمیت دنیا بھر میں یومِ یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں۔ آج جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد بھی یاد آتے ہیں جنہوں نے پاکستانیوں کی اپنے کشمیری بھائیوں کیساتھ یکجہتی کو ایک نیا رخ دینے کیلئے 5 فروری 1990ء کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا تو پاکستان کی سیاسی قیادت نے بھی کھلے دل کے ساتھ اس آواز پرایسا لبیک کہا کہ پھرآنے والی ہر حکومت نے اسے ہر سال قومی دن کے طورپر منایا اور اس سال بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ کشمیر ی بھی پاکستان کی محبت کا جواب محبت سے دیتے آرہے ہیں اور9 لاکھ کی بھارتی فوج میں گھرے ہونے کے باوجود ہر سال مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کے پورٹریٹ لگائے جاتے ہیں جن کے ذریعے بین الاقوامی فورموں پر کشمیریوں کا مقدمہ موثر انداز میں پیش کرنے پر پاکستان کے عوام‘ وزیراعظم اور آرمی چیف کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے ۔اگرچہ کشمیر کے ساتھ پاکستان اور اہل پاکستان کی یکجہتی کی ایک پوری تاریخ ہے ۔ 1965 ء کی ایوب خان کی قیادت میں جنگ ہو یا بھٹو مرحوم کی طرف سے کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے بھرپور اظہار کیلئے 1975ء میں اپنے دور حکومت میںاس نام نہاد معاہدہ کشمیر کیخلاف ملک گیر کامیاب ہڑتال جو اس وقت کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی کے ساتھ ملی بھگت کے تحت مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔اس تحریک کا اصل آغاز تو بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے یہ کہہ کر فرمایا تھا "کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی بھی قوم یا ملک یہ برداشت نہیں کرے گا کہ اس کی شہ رگ دشمن کی تلوار کے نیچے رہے "۔ مگر افسوس کہ پارٹیشن بائونڈری کمیشن، نے جس کی سربراہی سر سیرل ریڈکلف نے کی جان بوجھ کر گورداسپور ضلع کی دو مسلم اکثریتی تحصیلیں بھارت کو دے کر بھارت کو کشمیر تک زمینی رسائی فراہم کر دی اور جب اس شہ رگ پر 1948ء میں بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو قائداعظم نے افواج پاکستان ک اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو دشمن سے اپنی شہ رگ پاکستان کا قبضہ چھڑانے کیلئے کشمیر میں کارروائی کا حکم بھی دیا۔گریسی نے اس حکم پر عمل کیا ہوتا تو یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔بھارتی قیادت نے یہ سب کچھ بد نیتی سے کیا تھا ۔3 جون کے پلان کی رو سے ایک مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے کشمیر کے پاکستان میں شامل ہونے کی امید تھی۔ کشمیری آبادی اور اس کی حقیقی قیادت یعنی سردار ابراہیم خان پاکستان سے الحاق کرنا چاہتے تھے ۔ تاہم، ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے 24 اکتوبر 1947 ء کو لوگوں کی امنگوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی ایک متنازعہ دستاویز پر دستخط کیے ۔ بھارتی فوجوں کی آمد پر کشمیری اس غلامی پر بپھر گئے اور انہوں نے پکارا تو قبائلی ان کی مدد کو پہنچ گئے۔1948 ء میں ہندوستان پاکستان کے مابین کشمیر کے حوالے سے پہلی محاذ آرائی ہوئی تو یہ بھارت تھا جو ثالثی کے لیے اقوام متحدہ گیا۔ یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا یو این ایس سی نے فیصلہ دیا کہ 21 اپریل 1948 ء کو منظور شدہ قرارداد 47 کے مطابق کشمیر کے لوگ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے اپنی مرضی کا اظہار کریں گے مگر تب بھارت دفاعی حالت میں تھا اس لئے کہ پاکستان قومی یکجہتی کے حوالے سے مضبوط تھا اس کے بعد بھارت اور ہماری حکمران قیادت کی سوچ منصوبہ بندی اور ملک و قوم سے محبت کا امتحان شروع ہوگیا ۔نتیجہ یہ کہ ہم کمزور ہوتے گئے اور بھارت نے پسپائی سے جارحیت کی اہلیت حاصل کرلی ، پاکستان دو لخت کیا گیا اور مزید کمزوری اور قائدین کی نا اہلی سے بھارت کویہاںتک شہ ملی کہ 5 اگست 2019 ء کو مقبوضہ کشمیر کو آرٹیکل 370 اور 35(A) کی منسوخی سے بھارت میں ضم کر لیا یہ ایک آبادیاتی نسل پرستی ہے ۔ بھارتی حکومت نے یکطرفہ طور پر ایسا کیا اس اقدام کے نتیجے میں مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی حکومت احتجاج کو کچلنے کے لیے جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کرتی چلی آ رہی ہے ۔ آرٹیکل 35(A) نے بیرونی لوگوں کو، بشمول دیگر ریاستوں کے ہندوستانی شہریوں کو، علاقے میں آبادیاتی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے سرکاری ملازمین سمیت نئی آبادکاری سے روک دیا تھاجس کی ضمانت بھارتی آئین کی اس آرٹیکل کے تحت دی گئی تھی۔ یہ امر واقعہ ہے کہ کشمیری عوام نے گزشتہ74 سال سے زائد عرصہ سے غاصب اور ظالم بھارتی فوجوں اور دوسری سیکورٹی فورسز کے جبر و تشدد کو برداشت کرتے ‘ ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے اور متعصب بھارتی لیڈران کے مکر و فریب کا مقابلہ کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے ‘ اسکی پوری دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ اس خطہء ارضی پر آزادی کی کوئی تحریک نہ اتنی دیر تک چل پائی ہے ‘ نہ آزادی کی کسی تحریک میں کشمیری عوام کی طرح لاکھوں شہادتوں کے نذرانے پیش کئے گئے ہیں اور نہ ہی آزادی کی کسی تحریک میں عفت مآب خواتین نے اپنی عصمتوں کی اتنی قربانیاں دی ہیں جتنی کشمیری خواتین اب تک ظالم بھارتی فورسز کے ہاتھوں لٹتے برباد ہوتے اپنی عصمتوں کی قربانیاں دے چکی ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک انسانی تاریخ کی بے مثال تحریک ہے جس کی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے منزل بھی متعین ہے ۔
سوال یہ ہے کہ جو مقتدر حلقے اور یو این او جیسے ادارے مسلم ملک انڈونیشیا میں عیسائی آبادی والے 13 لاکھ کی آبادی کے ایک خطے کے لیے مختصر سی تحریک کے بعد 1999 ء میں استصواب رائے کروا کر انہیں 2002 ء میںآزادی کا پروانہ دلا سکتے ہیں وہ لاکھوں کشمیریوں کی برسوں کی جدو جہد اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اظہار رائے کے لئے سہولت کاری نہیں کرسکتے ؟ آخر مشرقی تیمور اور مقبوضہ کشمیر کا فرق کب تک عالمی انصاف کا منہ چڑاتا رہے گا ۔
مشرقی تیمور اور مقبوضہ کشمیر کے الگ الگ پیمانے کیوں؟
Feb 05, 2023