شہباز شریف نے ایک بار پھر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے پاکستان اور بھارت کو بلاوجہ کی کشمکش اور مخاصمت سے نکلنے کا مشورہ دیا ہے،شہباز شریف نے کہا ہے اگر بھارت اپنا رویہ تبدیل کر کے مذاکرات کی میز پرآنے کیلئے تیار ہو تووہ ہمیں بھی تیار پائے گالیکن اس کے لئے بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنا ہوں گی اور کشمیر سمیت تمام تنازعات کے منصفانہ حل کے لیے مذاکرات ناگزیر ہیں۔شہباز شریف کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ بھارت نے 2019 ء کے متنازع آرٹیکل سے کشمیر کی حیثیت کو پامال کیا ہے۔ہمارے حکمران سال ہا سال سے بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں اور بھارت مستقل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔بھارتی قیادت کے رویہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس سے بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران یہ کارِ لا حاصل گزشتہ سات دہائیوں سے کررہے ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم نے کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ قراردیاتھا مگر 75سال سے ملک پر مسلط حکمرانوں نے کشمیر کی آزادی کے بلند بانگ دعوئوں اور وعدوں کے باوجود ہمیشہ قوم کو مایوس کیا۔ مودی حکومت نے 41ماہ قبل کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کردیاتھا اور اسی دن سے کشمیر میں مکمل لاک ڈائون ہے۔ہر گھر پر ایک فوجی بندوق تانے کھڑا ہے ،بازارویران اور مارکیٹیں بندہیں۔ہر طرف خوف کے سائے ہیں اور سراسیمگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ،تعلیمی اداروں اور ہسپتالوںپر فوج کا قبضہ ہے۔ ساری کشمیری قیادت جیلوں میں قید ہے یا گھروں پر نظر بند ہے۔قائد حریت سید علی گیلانی علیہ الرحمہ کا جنازہ فوج کی نگرانی اور رات کے اندھیر ے میں پڑھا کر انہیں زبردستی حیدر پورہ کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ معیشت تباہ ہوگئی ہے۔کھیتوں اور کھلیانوں میں فصلیں اور باغات اجاڑ دیئے گئے ہیں۔ ہر روز لوگوں کو گھروں سے اٹھالیا جاتا ہے اور زمین دوزفوجی ٹارچرسیلوں اور عقوبت خانوں میں انہیں بدترین تشدد اور اذیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،اب تک لاکھوں کشمیریوں کو آزادی کے مطالبے کی پاداش میں شہید کردیا گیا ہے۔مائوں بہنوں بیٹیوں کی عزت پامال اور تارتارہے۔ان 41ماہ میں 20ہزارسے زائد کشمیری نوجوانوں کو کشمیر میں قائم فوجی ٹارچر سیلوں سے بھارت کی جیلوں میں منتقل کیا جاچکا ہے اور کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کیلئے لاکھوں ہندوئوں کو جن میں اکثریت شیوسینا،آرایس ایس اوربی جے پی کے مسلم دشمنی میں اندھے بدمعاشوں اور غنڈوں کی ہے، آباد کیا جارہا ہے۔کشمیری زبان کی بجائے ہندی کو دفتروں میں رائج کردیا گیاہے۔بھارت کشمیر سے آنے والے دریائوں پر بندباندھ کر ان کا رخ موڑ رہا ہے جس سے پاکستان کے دریاخشک اورزمینیں بنجر ہوجائیں گی اور ملک ایک صحرا کا منظر پیش کرے گا لیکن اس سب کے باوجود پاکستان خاموش ہے ، حکمرانوں کی غفلت اورلاپرواہی کی وجہ سے کشمیر میں جاری مظالم پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں نے مجرمانہ خاموشی ا ختیار کررکھی ہے۔ 5اگست 2019ء کو کشمیر کو بھارت کا حصہ قراردینے کے بعد سے مودی نے نہ صرف کشمیر میں بلکہ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ جماعت اسلامی مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ہم تحریک آزادی کشمیر کی پشتیبانی جاری رکھیں گے۔
کشمیر اس وقت چاروں طرف سے محاصرے اور دنیا کی بڑی جیل کا منظر پیش کر رہاہے۔ کشمیر کو جیل خانہ بنانے میں پاکستان کے حکمرانوں کا بھی ہاتھ ہے۔ بھارت کو ایل او سی پر باڑ لگانے کی اجازت پرویز مشرف نے دی۔ امریکہ میں ایک سیاہ فام پولیس کے ہاتھوں قتل ہوتاہے تو پورا امریکہ اٹھ کھڑا ہوتاہے مگر کشمیر میں ہرروز قتل عام کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اسلام آباد سنگ مرمر کا قبرستان بن چکاہے یہاں بڑے بڑے لوگ رہتے ہیں مگر ان کی سوچ محدود اور غیر سنجیدہ ہے۔ افغان قوم نے جرأت کا مظاہرہ کیا چالیس ممالک کی افواج نیٹو اور امریکی فوج کو شکست دی اور بالآخر امریکہ کوگھٹنے ٹیکنے اور شکست تسلیم کرنا پڑی جبکہ ہماری حکومتیں مصلحتوں اور بزدلی کے اندھیروں میں گم ہیں۔ حکومت کی خارجہ پالیسی کی مسلسل ناکامی کی وجہ سے بھارت سلامتی کونسل کا رکن بنا۔
کشمیر کی آزادی کے لیے مودی سے مذاکرات کی بھیک مانگنے کی بجائے غیرت اور جرا ٔت مند قیادت کی ضرورت ہے مگر ان حکمرانوں کی صفوں میں کوئی محمود غزنوی ، سلطان ٹیپو اور محمد بن قاسم نظر نہیں آتا۔سابق وزیراعظم آزاد کشمیر روتے ہوئے پاکستانی حکمرانوں سے پوچھا تھا کہ ہم کب تک اپنے معصوم بچوںاور جوانوں کے لاشے اٹھاتے رہیں گے۔ صدر آزاد کشمیر حکمرانوں کے رویے سے مایوس ہیں۔کشمیری پاکستان کی محبت اور آزادی کے لیے اپنی جانیں اور عصمتیں قربان کر رہے ہیں۔ مائوں کے سامنے ان کے معصوم جگر گوشوں اور نوجوان بیٹوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جاتا ہے اور بھائیوں کے سامنے ان کی مائوں اور بہنوں کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ معصوم بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے روتے اور بلکتے ہیں۔ مودی نے بابری مسجد کو رام مندر اور کشمیر کو بھارت کاحصہ بنانے کے دو وعدے پورے کردیے اور اب وہ آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کی باتیں کر رہاہے جبکہ ہمارے حکمرانوں نے قوم سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ پورا نہیں کیا۔
چار نسلوں سے کشمیریوں کا استحصال ہورہاہے۔ ہمارے حکمران قدم بقدم پیچھے ہٹ رہے ہیں اور کوئی اقدام کرنے کے بجائے تقریریں کر رہے اور محض دکھلاوے کیلئے پالیسیاں بنا رہے ہیں۔ ہم جنگ نہیں چاہتے مگر کشمیر میں اور ایل او سی پر بھارت نے جنگ برپا کررکھی ہے اور یہ جنگ مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ حکمران دنیا کو بتانے کی بجائے بزدلوں کی طرح مودی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ جس قوم نے جہاد سے پہلو تہی کی ، اللہ تعالیٰ نے اس کو ذلیل و خوار کردیا۔ حکومت جہادکا اعلان کرے پوری قوم اس کی آواز پر لبیک کہے گی۔ حکمرانوں کوتو سچ بولنے کی توفیق نہیں۔ سچ یہ ہے کہ بائیس کروڑ پاکستانی عوام اور ڈیڑھ کروڑ کشمیری اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اب وقت آگیاہے کہ یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔
قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ حکمرانوں کی بے حسی اور کشمیر سے لاتعلقی کے باوجود کشمیر کی آزادی کی تحریک جاری رہے گی۔ ہمارا اب بھی مطالبہ ہے کہ کشمیر کے یک نکاتی ایجنڈے پر اوآئی سی کا اجلاس اسلام آباد میں بلایا جائے۔ خاموشی کو توڑا اور دنیا کو کشمیریوں پر ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا جائے۔ جب تک آپ دشمن کو دوست سمجھتے رہیں گے ، نقصان اٹھائیں گے۔ قرار دادیں کوئی راستہ نہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سینکڑوں قرار دادیں پاس کر چکی ہے جس پر بھارت ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اب قراردادوں سے بات بہت آگے بڑھ چکی ہے ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرار دادیں فرار کی راہیں ثابت ہوئی ہیں۔ حکومت نے بہت وقت ضائع کردیا اب اسے مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کے پاس اب زیادہ وقت نہیں رہا۔