یوم کشمیر!بھارتی جاہلیت اجاگر کرنے کا دن

Feb 05, 2024

رفیع شہزاد بھٹہ

5 فروری پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے، جو ‘یوم کشمیر’ یا "یوم یکجہتی کشمیر’’ کے طور پر منایا جاتا ہے۔جس میں قومی سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم شریک ہو کر غاصب بھارت کو یہ پیغام دیتی ہے کہ کشمیر پر اس کا تسلط بزور طاقت قائم نہیں رہ سکتا اور یواین قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام نے اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔کشمیری عوام نے گزشتہ 75 برس سے بھارتی جاہلیت کے تحت غاصب اور ظالم بھارتی فوج اور دوسری سیکورٹی فورسز کے جبر و تشدد اور ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی طویل جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے‘ اسکی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آزادی کی کسی تحریک میں کشمیری عوام کی طرح لاکھوں شہادتوں کے نذرانے پیش کئے جا چکے ہیں اورخواتین کی بڑی تعداد اپنی عصمتیں گنواچکی ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک انسانی تاریخ کی بے مثال تحریک ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تقسیم ہند کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا جبکہ قائداعظم نے کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور جب اس شہ رگ پر 1948ء میں بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو کشمیر پر چڑھائی کرنے کا حکم دیا لیکن جنرل گریسی نے قائداعظم کے اس حکم کی تعمیل نہ کی اور جواز یہ پیش کیا کہ وہ برطانوی افواج کے سربراہ کے تابع ہیں اور انکی اجازت کے بغیر کشمیر کی جانب پیش قدمی نہیں کر سکتے۔ اس سے یہ حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے کہ کشمیر کا تنازعہ بھارت اور برطانیہ کی ملی بھگت سے ہی پیدا ہوا۔پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کا تنازعہ پر شروع لڑائی کا تصفیہ کرانے کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 12اگست 1948ء اور 5مئی 1949ء کو دو قراردادیںپاس کیں جن میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی کرکے اور کشمیر سے اپنی فوجیں نکالیں اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب کا انتظام کیا جائے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں جنگ بندی تو ہوگئی۔ مگرپاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھارت رائے شماری سے بدک گیا اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے آج تک کشمیر کا مسئلہ حل کی جانب کبھی نہیں آیا۔
5 اگست 2019ء میں مودی سرکار نے اقوام متحدہ کے منہ پر ایک طمانچہ مارتے ہوئے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کیلئے آئین کی دفعات 370 اور 35۔اے کو آئین سے حذف کرانے کیلئے یکایک بھارتی لوک سبھا میں بل پیش کرکے اسکی منظوری حاصل کی اور پھر بھارتی راجیہ سبھا میں آئینی بل کی منظوری حاصل کرکے بھارتی صدر کے دستخطوں سے آئین سے متذکرہ دفعات نکال کر مقبوضہ وادی کو جموں اور لداخ کے دو حصوں میں تقسیم کردیا اور پھر انہیں باقاعدہ بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا دیا۔بھارت کے اس اقدام پر اقوام متحدہ نے کشمیری عوام اور دنیا کو مطمئن کرنے کی غرض سے یکے بعد دیگرے تین ہنگامی اجلاس طلب کئے جس میں صرف مذمتی بیانات پر ہی اکتفا کیا گیا۔ اقوام متحدہ سمیت کسی بھی عالمی ادارے کی طرف سے بھارت پر کسی قسم کا دبائو نہیں ڈالا گیا اور نہ ہی اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں جس کے خوف زدہ ہو کر بھارت کشمیر کی آئینی حیثیت بحال کرتا‘ بلکہ اس سے بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور اب وہ مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں بھی مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کررہا ہے۔ 
افسوسناک امر تویہ ہے کہ بھارت کی ان تمام تر بدمعاشیوں اور غنڈہ گردی کے باوجود اقوام متحدہ جیسا انسانی حقوق کا علمبردار ادارہ خاموش ہے۔ مسئلہ کشمیر جو گزشتہ 75 سال سے حل طلب ہے جس کیلئے پاکستانی کشمیری عوام دنیا کے ہر عالمی فورم پر آواز بھی اٹھا رہے ہیں‘اسکے حل کیلئے اس کی طرف سے آج تک بھارت پردبائونہیں ڈالا جارہا اور نہ ہی اسکی وادی میں جاری اسکی دہشت گردی کا نوٹس لے رہا ہے۔حالانکہ بھارت اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی درجن بھر قراردادوں کو بھی ہمیشہ سے جوتے کی نوک پر رکھتا آیا ہے۔ دفعہ 370کی روسے بھارتی یونین میں ریاست جموں وکشمیر کی ایک خصوصی حیثیت تسلیم کی گئی تھی اور دفعہ 35-Aکی رو شنی میں مہاراجہ کے سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کو تحفظ دیا گیا جس کی رو سے غیر ریاستی شہریوں کو قانونی طور پر نہ ریاست کی شہریت دی جا سکتی ہے‘ نہ وہ جائیداد خرید سکتے ہیں اور نہ ہی ووٹر بن سکتے ہیں مگر مودی سرکار نے کشمیر کے اسی تشخص کو ختم کرنے کیلئے بھارتی آئین کی متذکرہ شق میں ترمیم کراکے ہندو پنڈتوں کو مقبوضہ وادی میں متروکہ وقف کی املاک خریدنے اور وہاں مندر تعمیر کرنے کا حق دے دیا جس کا اصل مقصد مقبوضہ وادی کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ 2020ء کے اوائل میں ، حکومت نے پھر ایک نیا ڈومیسائل قانون منظور کیا ، جس سے ملک کے دیگر مقامات سے بھارتی شہریوں کو پہلی بار جموں و کشمیر کے مستقل رہائشی بننے کی اجازت دی گئی۔ مودی سرکار نے کئی دوسرے احکامات بھی جاری کئے جن کے تحت کشمیری مسلمانوں کو مقامی حکومت سے نکالا گیا اور غیر مقامی کاروباری اداروں کیلئے خطے کے وسائل کو استعمال کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔ مقامی کشمیریوں کیخلاف آبادیاتی توازن کو منظم طریقے سے تبدیل کرکے مودی سرکار اب تک 25,000 لوگوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی شکل میں رہائشی حقوق دے چکی ہے۔ عالمی برادری کو اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ بھارت کشمیر اور بھارت میںعالمی قوانین کی دھجیاں اڑا نے پر قانون نافذ کرنے والے عالمی اداروں کی مجرمانہ خاموشی اسکے مزید حوصلہ بڑھا رہی ہے اور خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔کشمیری اور پاکستانی قوم کا عالمی برادری سے مشترکہ مطالبہ ہے کہ وہ جموں کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت موقف اختیار کرے اور تنازع کے پرامن اور منصفانہ حل کے لیے بھارت پر دبائو ڈالے۔ بھارت کو بھی چاہئے کہ وہ 75سالوں سے جاری جاہلیت کو چھوڑ کر جموں و کشمیر کے لوگوں کے خلاف اپنے مظالم کو فوری طور پر بند کرے اور ان کے حق خود ارادیت کا احترام کرے۔ 5 فروری 2024 یوم یکجہتی کشمیر پر ہم بحیثیت قوم جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں اور تنازعہ کے پرامن اور منصفانہ حل کے لیے کام ہر فورم پر آواز بلند رکھیں گے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگ تمام مصائب کا خاتمہ دیکھیں اور کشمیری قوم امن اور وقار کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔بلاشبہ اقوام عالم کی ہی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقوق کا احترام کیا جائے تاکہ خون سے لت پت اس خطے میں امن و استحکام بحال ہو سکے۔

مزیدخبریں