شفاف انتخابات ، بے یقینی کا خاتمہ !

ایک وقت تک تھا جب میاں نواز شریف ، مریم نواز شریف و دیگران کو عدالتوں نے سزائیں سنائیں تو ملکی سیاست میں طوفان برپا ہوگیا،مٹھائیاں بانٹی گئیں ، مبارکبادیں دی گئیں، دعوے کئے گئے کہ انکی سیاست ہمیشہ کیلئے ختم ہوگئی، جب انھی عدالتوں نے شریف خاندان کو دی گئیں سزائیں معطل کیں اور بعد ازاں میرٹ پر بری کردیا تو مجال ہے کہ کسی کے منہ سے کلمہ حق نکلا ہو کہ نواز شریف کو دی جانے والی سزا غلط تھی ، صرف ایک ہی تکرار کی گئی کہ نواز شریف کو ملنے والی سزا درست تھی اور صرف اس وجہ سے بری کیا گیا کیونکہ اس نے ڈیل کر لی تھی ،عوام نے دیکھا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو ملنے والی سزائوں پر بالخصوص ایک نجی چینل نے کس طرح چیخ چیخ کر خوشی کا اظہار کیا تھا ،جب نواز شریف اور مریم نوازشریف کی بریت ہوئی تو اسی چینل پرشدیدسوگ طاری ہوگیا ،بعد ازاں اس چینل کے مخصوص کٹھ پتلی اینکر بھی منظر سے غائب ہوگئے ،اب عدالتوں کی جانب سے پہلے سائفر گیٹ سکینڈل ، توشہ خانہ کیس اور اب عدت میں نکاح کیس میں عمران نیازی اور بشریٰ بی بی کو سزائیں ملنے پر اندرون اور بیرون ملک ملا جلا ردعمل آرہا ہے، ایک بار پھر مٹھائیاں بانٹی اور مبارک بادی گئیں،جس کے نئی بحث چل نکلی ہے کہ شریف خاندان والی سزائیں اور نیازی کی سزائیں دونوں میں کیا فرق ہے؟ عوام کی جانب سے ایک بار پھر سولات اٹھانے شروع کردیئے گئے ہیں کہ کونسی سزائیں غلط تھیں ؟ کونسی سزائیں درست ہیں؟ سنجیدہ عوام کا کہنا ہیکہ کب تک عدالتی فیصلوں کے ذریعے سیاست دانوں کی سیاست سے بیدخلی کا عمل جاری رہیگا؟ کب سیاستدانوں کو کنٹرول کرکے کٹھ پتلی بنایا جاتا رہیگا ؟ کیا سیاستدان ایسے سلوک کے مستحق ہیں ؟ہمیشہ سیاستدانوں کو سزائیں کیوں ملتی ہیں؟ سیاستدانوں پر ہونیوالا جبر کب ختم ہوگا؟ پی ٹی آئی کے حمایتیوں کا خیال ہے کہ الیکشن سے پہلے یہ سزائیں ان کیلئے رحمت کی بارش بنیں گی ،ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابی مہم میں سزائوں کیخلاف عوامی ہمدردی کے جذبات ابھارے جائیں ، عوام کو متحرک کیا گیا تو یہ سزائیں پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں خاطر خواہ  اضافہ کریں گی ،پی ٹی آئی کیچاہنے والوں کا خیال ہیکہ چاہے عمران نیازی و دیگران جیل میں رہیں اورعوام انکے امیدواران کو فتح سے ہمکنا ر کریں گے، پی ٹی آ ئی کے حمایتی وکلاء کا کہنا ہے کہ عمران نیازی اور بشریٰ بی بی کو ملنے والی سزائیں سیاسی ہیں اور وقت آنے پر سپریم کورٹ سے معطل ہوجائیں گی اور انکے رہنما بھی نوازشریف ودیگران کی طرح میرٹ پر بری ہوجائیں گے، جبکہ مخالف حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسا ہونا بالکل بھی ممکن نہیں لگتا ہے تاہم یہ تو وقت ہی بتائیگا کہ ایسا ہونا ممکن بھی ہے یا نہیں، پی ٹی آئی کے خیر خواہوں کا کہنا ہے کہ عمران نیازی اور بشریٰ بی بی کو ملنے والی سزائوں میں وکلاء  کی نالائقی اور نااہلی بھی شامل ہے، سائفر گیٹ اور توشہ خانہ کیس کیسوں کا ٹرائل شروع ہوا توپی ٹی آئی کے وکلاء نے بھرپور کوشش کی کہ یہ دونوں ٹرائل پردلائل کسی صورت مکمل نہ ہو پائیں، وہ کسی بھی مرحلے پر مکمل طور پر تیاری کرکے نہیں آئے بلکہ انھوں نے تاخیری حربے استعمال کئے جن کا فائدہ کم اور نقصان ہوا،پی ٹی آئی کے حمایتیوں کے سامنے بڑے بڑے سوال پھن پھیلائے کھڑے ہیں، پہلا یہ کہ 8 فروری الیکشن ڈے کے موقع پر عوام کو گھر سے نکال کر پولنگ بوتھ تک لانے کی لازمی ایکسر سائز کیسے اور کیونکر ہوگی؟ اس ایکسر سائز کو مربوط کرکے کنٹرول کون کریگا؟الیکشن ڈے کیلئے مطلوبہ فنڈز کہاں سے آئیںگے؟ عوام کا سنجیدہ بڑاحلقہ اس خوف میں مبتلا ہے کہ ان سزائوں کی وجہ سے پی ٹی آئی کے ووٹرو ں میں غصہ بڑھ رہا ہے، ملک بھر میں جاری انتخابی مہم  کے دوران میں اس غصے کی جھلک گاہے بگاہے دکھائی دے رہی ہے ، عوام کو یہ بھی اندیشہ ہے کہ اگر الیکشن کے روز نفرت ، تشدد کی ہوا چلی تو پھرقتل و غارت کو کیسے کنٹرول کیا جاسکے گا؟فوج کی جانب سے عام انتخابات کیپرامن اور شفاف انعقاد کے عزم کو خوش ا?ئند کہا جارہا ہے ،غیر ملکی صحافیوں کی بھی پاکستان آمد متوقع ہیجس کے بعد امید کی جارہی ہے کہ شفاف ا نتخا بات کے بعد ایک مستحکم جمہوری حکومت قائم ہوگی اور ملک پر چھائی بے یقینی کا خاتمہ ہوجائیگا۔

ای پیپر دی نیشن