مشیر کاظمی :ایک عظیم شاعر

Feb 05, 2024

ڈاکٹر طلعت شبیر- اطراف

ڈاکٹر طلعت شبیر

اکادمی ادبیات اسلام ا?باد میں سجی ایک خوبصورت اور دل آویز شام ہے اور دہائیوں سے کانوں میں رس گھولنے اور دلوں کو گرمانے والے فلمی اور ملی نغموں کے خالق مشیر کاظمی کی کلیات کی تقریب کا اہتمام ہے۔ مشیر کاظمی کے ہونہار فرزند ثقلین کاظمی کی پْر تاثیر گفتگو ، تحت اللفظ میں سنایا  جانے والا کلام اور ترنم سے پڑھی جانے والی نظم " قبرِ اقبال پر " نے ایسی کیفیت طاری کی کہ ہال میں موجود سب لوگوں کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ ثقلین کاظمی کی آواز کی اثر انگیزی کی بڑی وجہ شایدیہ تھی کہ اْن کے ترنم میں اْن والد ِ گرامی کی جھلک دکھائی دے رہی تھی اور لوگ ماضی کے جھروکوں میں کھو گئے۔ثقلین کاظمی شاعروں اور ادیبوں کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اولادوں میں گِنے چْنے  سعادت مند بچوں میں شمار ہوتے ہیں جو اپنے عظیم والد کی جلائی گئی شمع کو اْٹھائے پھرتے نظر آتے ہیں۔ شعر و ادب سے تعلق اور تجربے کی بنیاد پر میں ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ ثقلین کاظمی خوش قسمت ہیں کہ اْنھوں نے اپنے وقت کے ایسے عظیم تخلیق کار کے ہاں جنم لیا کہ جن کے حصے میں اْردو شعروادب کی شاہکار تخلیقات آئی ہیں اور مشیر کاظمی بھی خوش قسمت گذرے کہ اْن کے ہاں ایسے بیٹے کا جنم ہوا جو اْن کی روشن کی ہوئی شمع کو مسلسل بلند کیے ہوئے ہے۔اِس کے برعکس نامی گرامی شعراء   اور ادباء ایسے جانشینوں سے محروم ہوئے جو اْن کے کام کی ترویج کرتے اور بھلے چند دہائیوں تک ہی سہی اْن کے کام کو زندہ رکھنے کی سعی کرتے۔
شعرو ادب کی دْنیا بہت آسانیوں کی دْنیا نہیں ہوتی اور اِ س دْنیا میں نام پیدا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ لوگوں کے دِلوں میں گھر کرنے کے لیے الفاظ میں جادو جیسا اثر درکار ہوتا ہے اور اْس کے لیے مسلسل ریاضت کے عمل سے گذرنا پڑتا ہے۔ تخلیق میں خیال کا اچھوتا پن نہ ہو تو کلام بے اثر ہوتا ہے اور دِل میں اْترنے کے لیے ضروری ہے کہ لکھا گیا ایک ایک حرف لہو سے سیراب ہو اور محبت کی بھٹی سے گذر کر کْندن بنے۔ کلام میں دائمی اثرسطحی سوچ کے ساتھ آنہیں سکتا اور دِلوں پر وہی شاعر یا ادیب حکمرانی کر سکتا ہے جو انسانی دْنیا کے احساسات، کرب اور جذبات کی کیفیت سے اخلاص کے ساتھ گزراہو اور مشاہدے اور سوچ کو لفظوں میں ڈھالنے کا ہنر جانتا ہو۔ عظیم تخلیق کاروں کی سچائی اور فکر اْن کے لکھے اور کہے گئے لفظوں میں دکھائی دیتی ہے اوروہ آنے والی کئی نسلوں تک اپنے فکرو خیال کی شمع روشن کرتے چلے جاتے ہیں۔
مشیر کاظمی کا کلام سنتے ہوئے اور پڑھتے ہوئے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ شایدوہ آپ سے براہ راست مخاطب ہیں اور آپ کو اپنے عہد کے ساتھ جوڑے رکھنا چاہتے ہیں۔ مشیر کاظمی کے کلام میں بے باکی اور سچائی ہے۔ انہوں نے جو دیکھا ، جو محسوس کیا اْس کو خوبصورت الفاظ میں پیش کردیا۔ نئی نسل کے لیییہ جاننا بہت ضروری ہے کہ مشیر کاظمی اپنے وقت کی شاہکار تخلیقات شعرو ادب کی دْنیا کے حوالے کرچکے ہیں۔ بہت سارے ادبی زعماء کا خیال ہے کہ مشیر کاظمی جب تخلیقی میدان میں تھیاورشعرو نغمہ تخلیق کر رہے تھے تو عین اْس وقت اْن کے ہم پلہ ہم عصر بھی شہرہ آفاق نغمے اور نظمیں تخلیق کر رہے تھے۔ اْس وقت اْن کے ہم عصر بھی اْنھی کی سطح کا کام کرنے میں مصروف تھے۔ مشیر کاظمی کے لیے بلا شبہ سخت ترین مقابلے کی فضا تھی اور ایسے میں اْنھوں نے چاندنی راتیں تاروں سے کریں باتیں، تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے ، مرجھائے ہوئے پھولوں کی قسم ، ہم چلے اِس جہاں سے اور شکوہ نہ کر گلہ نہ کر جیسے لازوال گیت اور اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں جیسے شہرہ آفاق ملی نغمے تخلیق کیے۔ مشیر کاظمی کی رثائی شاعری اور اْن کی شہکار نظمیں اور لازوال فلمی نغمے انہیں ادبی دْنیا میں امرکرنے کے لیے کافی ہیں۔
اکادمی ادبیات کی تقریب میں جو نظم ثقلین کاظمی نیاپنے والد کے لب و لہجے میں ترنم سے پیش کی وہ نوحہ ہے۔ وہ نوحہ ہے ایسیواقعے کے صدمے کا جس سے قوم دہائیوں بعد بھی نہ نکل سکی۔ وہ ایک کرب ہے جس سے مشیر کاظمی گذرے اور اقبال کی قبر تک پہنچے اور دھوپ چھائوں کی کہانی بیان کرتے ہوئے نوحہ کناں قوم کی ترجمانی کی اور گھر بھی دو ہوگئے در بھی دو ہو گئے جیسے دْکھ کو بیان کیا۔ جب ثقلین کاظمی نظم قبرِ اقبال پر سنا رہے تھے تو یوں محسوس ہورہاتھاکہ مشیر کاظمی کے الفاظ دہائیا ں گذر جانے کے باوجود ایسے ہی پرسوز اور تازہ ہیں جیسیسقوط ِ ڈھاکہ کے وقت تھے۔خون ِ جگر سے تخلیق کی گئی تصویر بھی ابھی زخموں کی طرح تازہ ہے۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں مشیر کاظمی کی فکر انگیز شاعری نے ادبی منظر نامے پر انمٹ نقوش چھوڑے۔مشیر کاظمی کی شاعری محبت اور حب الوطنی جیسے موضوعات سے عبارت ہے اور اْن کے فکر کا اچھوتا پن انہیں اپنے عہد کے شعرا میں ممتاز کرتا ہے۔ مشیر کاظمی مخصوس دائروں تک محدود شاعر نہیں تھے بلکہ وہ اپنے وقت کے سماجی اور سیاسی حالات کے بھی عمیق مبصر تھے جنہوں نے شاعروں، ادیبوں اور مفکرین کی ایک نسل کو متاثر کیا۔یہی مشیر کاظمی کی میراث ہے اور یہی فکروخیال کا خزانہ ہے جس کو ثقلین کاظمی اگلی نسل تک منتقل کرنے کا فرض نبھا رہے ہیں۔

مزیدخبریں