حکمرانوں کا بزدلانہ رویہ۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں بڑی رکاوٹ!

ہمارے حکمران سال ہا سال سے بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں اور بھارت مستقل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔بھارتی قیادت کے رویہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس سے بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران یہ کار لا حاصل گزشتہ سات دہائیوں سے کررہے ہیں۔
کشمیر کی آزادی کے لیے مودی سے مذاکرات کی بھیک مانگنے کی بجائے غیرت اور جرأت مند قیادت کی ضرورت ہے مگر پاکستان پر مسلط رہنے والے حکمرانوں کی صفوں میں کوئی محمود غزنوی، سلطان ٹیپو اور محمد بن قاسم نظر نہیں آیا۔سابق وزیراعظم آزاد کشمیر روتے ہوئے پاکستانی حکمرانوں سے پوچھا تھا کہ ہم کب تک اپنے معصوم بچوں اور جوانوں کے لاشے اٹھاتے رہیں گے۔ صدر آزاد کشمیر حکمرانوں کے رویے سے مایوس ہیں۔ اسلام آباد کے بنگلوں میں بیٹھ کر حکمرانی کرنیوالوں کے دل میں کشمیریوں کا درد ہوتا تو چار سالہ معصوم بچے اور اس کے نانا کی تصویر ان کی غیرت اور ایمان کو جگانے کیلئے کافی تھی۔کشمیری پاکستان کی محبت اور آزادی کیلئے اپنی جانیں اور عصمتیں قربان کر رہے ہیں۔ ماؤں کے سامنے ان کے معصوم جگر گوشوں اور نوجوان بیٹوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جاتا ہے اور بھائیوں کے سامنے انکی ماؤں اور بہنوں کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ معصوم بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے روتے اور بلکتے ہیں۔ مودی نے بابری مسجد کو رام مندر اور کشمیر کو بھارت کاحصہ بنانے کے دو وعدے پورے کردیے اور اب وہ آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کی باتیں کر رہاہے جبکہ ہمارے حکمرانوں نے قوم سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ پورا نہیں کیا۔
حکومت نے دو سال قبل اپنی26 تا2022 کی اعلان کردہ قومی سلامتی پالیسی میں بھی مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے عزم کا اظہارتھا اورکہاتھا کہ ’’پاکستان کشمیر سے متعلق اپنی پوزیشن پر قائم ہے اور وہ کشمیر کے تنازع کے منصفانہ حل کا مطالبہ کرتا رہے گا۔ ایک ایسا حل جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔‘‘اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اپنے  بیان میں اس عزم کا اعادہ کیاتھا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جائے گا مگر آج تک ان بیانات پر عمل نہیں ہوسکاجو گزشتہ 76سالوں سے دیئے جارہے ہیں س۔ مسئلہ کشمیر گزشتہ 76سال سے جنوبی ایشیا ء کے امن کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے۔پورا خطہ بارود کے ایک ڈھیر پر ہے،ذراسی چنگاری اس کو ایک لمحہ میں جلا کرراکھ کرسکتی ہے لیکن آگ کو دیوتا سمجھ کر اسکی پوجا کرنے والا مودی خطے کو جنگ کی آگ کے شعلوں کے حوالے کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اہل کشمیر76 سال سے پاکستان کی تکمیل، سالمیت اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں مگرہمارے حکمران ہر دوچار سال بعد ایک پالیسی بیان دے کر اسے بھلا بیٹھتے ہیں۔ موجودہ حکومت میں بھی خطاب اورٹویٹ کیے اور خط لکھے جارہے ہیں مگر عملاً کچھ نہیں کیا جارہا۔
بانی پاکستان قائد اعظم نے کشمیرکو پاکستان کی شہہ رگ قراردیاتھا مگر76 سال سے ملک پر مسلط حکمرانوں نے کشمیر کی آزادی کے بلند و بانگ دعوؤں اور وعدوں کے باوجود ہمیشہ قوم کو مایوس کیا۔ مودی حکومت نے 53ماہ قبل کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کردیاتھا اور اسی دن سے کشمیر میں مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ہر گھر پر ایک فوجی بندوق تانے کھڑا ہے،بازارویران اور مارکیٹیں بندہیں۔ہر طرف خوف کے سائے ہیں اور سراسیمگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں،تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں پر فوج کا قبضہ ہے۔ ساری کشمیری قیادت جیلوں میں قید ہے یا گھروں پر نظر بند ہے۔قائد حریت سید علی گیلانی علیہ الرحمہ کا جنازہ فوج کی نگرانی اور رات کے اندھیر ے میں پڑھا کر انہیں زبردستی حیدر پورہ کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ معیشت تباہ ہوگئی ہے۔کھیتوں اور کھلیانوں میں فصلیں اور باغات اجاڑ دیئے گئے ہیں۔ ہر روز لوگوں کو گھروں سے اٹھالیا جاتا ہے اور زمین دوزفوجی ٹارچرسیلوں اور عقوبت خانوں میں انہیں بدترین تشدد اور اذیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے،اب تک لاکھوں کشمیریوں کو آزادی کے مطالبے کی پاداش میں شہید کردیا گیا ہے۔ ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزت پامال اور تارتار ہیں۔ان 53ماہ میں 20ہزارسے زائد کشمیری نوجوانوں کو کشمیر میں قائم فوجی ٹارچر سیلوں سے بھارت کی جیلوں میں منتقل کیا جاچکا ہے اور کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کیلئے لاکھوں ہندوؤں کو جن میں اکثریت شیوسینا،آرایس ایس اوربی جے پی کے مسلم دشمنی میں اندھے بدمعاشوں اور غنڈوں کی ہے آباد کیا جارہا ہے۔کشمیری زبان کی بجائے ہندی کو دفتروں میں رائج کردیا گیاہے۔بھارت کشمیر سے آنیوالے دریاؤں پر بندباندھ کر ان کا رخ موڑ رہا ہے جس سے پاکستان کے دریاخشک اورزمینیں بنجر ہوجائیں گی اور ملک ایک صحرا کا منظر پیش کریگا لیکن اس سب کے باوجود پاکستان خاموش ہے، حکمرانوں کی غفلت اورلاپرواہی کی وجہ سے کشمیر میں جاری مظالم پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں نے مجرمانہ خاموشی ا ختیار کررکھی ہے۔  5 اگست 2019کو کشمیر کو بھارت کا حصہ قراردینے کے بعد سے مودی نے نہ صرف کشمیر میں بلکہ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ جماعت اسلامی مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ہم تحریک آزادی  کشمیر کی پشتیبانی جاری رکھیں گے۔!  
٭…٭…٭


کشمیر کی آزادی کیلئے آخری گولی اور آخری سانس تک لڑنے کا ا علان کرنے والوں نے اپنے دور اقتدار میں ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔حکومت کی ہر حرکت مشکو ک ہو گئی۔ حکومت کا فرض تھاکہ پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے بعد قومی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر مشترکہ لائحہ عمل بناتی اور اس پر عملدرآمد کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتی۔ کشمیری اور پاکستانی عوام حکومت کی طرف سے جہاد کے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں،چاہئے تو یہ تھا کہ اقوام متحدہ سے واپسی پرسابق وزیر اعظم عمران خان آزادی کشمیر کا واضح روڈ میپ دیتے، مگر ٹیپو سلطان کے راستہ پر چلنے کا نعرہ لگانے والے سابق وزیراعظم 27 ستمبر کی تقریر کے بعدسے چپ سادھے بیٹھے رہے اور اقوام متحدہ کی تقریر کے الفاظ انہیں ڈھونڈتے رہے۔پی ڈی ایم کی حکومت بھی اسی ڈگر پر چلتی رہی۔ قومی قیادت کو مل بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ مودی کے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کو ناکام بنانے اور کشمیریوں کو بھارتی مظالم سے نجات دلانے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
کشمیر اس وقت چاروں طرف سے محاصرے اور دنیا کی بڑی جیل کا منظر پیش کر رہاہے۔ کشمیر کو جیل خانہ بنانے میں پاکستان کے حکمرانوں کا بھی ہاتھ ہے۔ بھارت کو ایل او سی پر باڑ لگانے کی اجازت پرویز مشرف نے دی۔ امریکہ میں ایک سیاہ فام پولیس کے ہاتھوں قتل ہوتاہے تو پورا امریکہ اٹھ کھڑا ہوتاہے مگر کشمیر میں ہرروز قتل عام کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اسلام آباد سنگ مرمر کا قبرستان بن چکاہے یہاں بڑے بڑے لوگ رہتے ہیں مگر ان کی سوچ محدود اور غیر سنجیدہ ہے۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں آٹھ ماہ تک کشمیر کمیٹی کا کوئی چیئرمین نہیں تھا۔ پہلے فخر امام کو کمیٹی کا چیئرمین بنایا اور جب انہوں نے کام شروع کیا تو ان کو بدل دیاگیا۔ آج تک پاکستانی حکمرانوں کی ایک ہی پالیسی رہی ہے،یہ بڑے بڑے نعرے لگاتے ہیں اور پھر ہر بات اور وعدے کو بھول جاتے ہیں۔ عمران خان نے اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کے بعد واپس آ کر جنرل گریسی کی پالیسی پر چلتے ہوئے اعلان کیا کہ جو کشمیر کی طرف جائے گا وہ پاکستان کا غدار ہوگا۔ اس کے بعد کی حکومت جو اچھل کود کر رہی تھی یہ کشمیر کی آزادی کے لیے نہیں بلکہ قوم کو دھوکہ دینے کے لیے تھی۔ آزادی کشمیر کی تحریک کو  سخت نقصان پہچا۔حکومت کی خارجہ پالیسی کی مسلسل ناکامی کی وجہ سے بھارت سلامتی کونسل کا رکن بنا۔     
     چار نسلوں سے کشمیریوں کا استحصال ہورہاہے۔ ہمارے حکمران قدم بقدم پیچھے ہٹ رہے ہیں اور کوئی اقدام کرنے کے بجائے تقریریں کر رہے اور محض دکھلاوے کیلئے پالیسیاں بنا رہے ہیں۔ ہم جنگ نہیں چاہتے مگر کشمیر میں اور ایل او سی پر بھارت نے جنگ برپا کررکھی ہے اور یہ جنگ مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ حکمران دنیا کو بتانے کی بجائے بزدلوں کی طرح مودی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ جس قوم نے جہاد سے پہلو تہی کی، اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل و خوار کردیا۔ حکومت جہادکا اعلان کرے پوری قوم اس کی آواز پر لبیک کہے گی۔ حکمرانوں کوتو سچ بولنے کی توفیق نہیں۔ سچ یہ ہے کہ بائیس کروڑ پاکستانی عوام اور ڈیڑھ کروڑ کشمیری اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اب وقت آگیاہے کہ یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔
    قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ حکمرانوں کی بے حسی اور کشمیر سے لاتعلقی کے باوجود کشمیر کی آزادی کی تحریک جاری رہے گی۔ ہمارا اب بھی مطالبہ ہے کہ کشمیر کے یک نکاتی ایجنڈے پر اوآئی سی کا اجلاس اسلام آباد میں بلایا جائے۔ خاموشی کو توڑا اور دنیا کو کشمیریوں پر ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا جائے۔ جب تک آپ دشمن کو دوست سمجھتے رہیں گے، نقصان اٹھائیں گے۔ قرار دادیں کوئی راستہ نہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سینکڑوں قرار دادیں پاس کر چکی ہے جس پر بھارت ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اب قراردادوں سے بات بہت آگے بڑھ چکی ہے،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرار دادیں فرار کی راہیں ثابت ہوئی ہیں۔ حکومت نے بہت وقت ضائع کردیا اب اسے مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کے پاس اب زیادہ وقت نہیں رہا۔

ای پیپر دی نیشن