5  فروری یوم یکجہتی کشمیر:پس منظر اور تقاضے 

Feb 05, 2024

عبدالرشید ترابی

سترکی دہائی عالمی سطح پر استعمار کے خلاف گوریلا تحریکوں کا دور تھا جس سے متاثر ہو کرجناب مقبول بٹ شہیداور انکے رفقاء نے گوریلا کارروائیوں کا آغاز کیا۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں پھانسی دے کر شہید کر دیاگیا۔انکی شہادت نے بھی نوجوانوں کے جذبہ حریت کو ایک نیا ولولہ عطا کیا۔ 1979ء میں شاہ ایران جو اس خطے میں امریکہ کا ایک بہت بڑا مہرہ سمجھا جاتا تھا کے خلاف اسلامی انقلاب کابرپا ہونا بھی اہل کشمیر کیلئے حوصلوں کی بلندی کا ذریعہ بنا۔اسی عرصے میں اسلامی جمعیت طلبہ نے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا سرینگر میں انعقاد کا فیصلہ کیا جس پر بھارتی حکومت نے پابندی عائد کر دی لیکن یہ اقدام نوجوانوں کی بیداری کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوا۔ بعد میں اسی کی دہائی میں افغان جہاد میں مجاہدین افغانستان کی شاندار فتوحات اور بالآخر سوویت یونین کی شکست و ریخت سے کشمیری نوجوانوں نے یہ پیغام اخذ کیا کہ اگر ایران میں امریکی اور افغانستان میںسوویت روس کو شکست ہوسکتی ہے تو ہم کشمیر میں بھارتی استعمار کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔حالات کے اس پس منظر میں کشمیری قیادت کی شہید ضیاء الحق سے مشاورت کا عمل شروع ہوا اورمرحلہ وار تحریک برپا کرنے پر اتفاق ہوا۔جوںہی اقدامات شروع ہوئے عین اس موقع پر ضیاء الحق اور ان کی ٹیم کو ایک سازش کے ذریعے جہاز میں اڑا دیا گیا۔ پاکستان میں انتخابات ہوئے مرکز میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت میاں نواز شریف صاحب کی قیادت میں قائم ہوئی۔جن کے درمیان سخت بے اعتمادی اور کشیدگی کا ماحول تھا محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے آئی ایس آئی کے سربراہی ایک ریٹائرڈ جنرل شمس الرحمن کلو کو سپرد کر دی جس کے نتیجے میں حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان بھی بے اعتمادی کا ماحول پیدا ہو گیا۔ادھر کشمیر میں روزبروز حالات انقلاب کی طرف بڑھ رہے تھے۔
 لاکھوں کے مظاہرے روز کا معمول بن گئے۔ان مظاہرین پر بھارتی افواج کی فائرنگ کے نتیجے میں لاشوں کے انبار لگتے رہے۔ مجاہدین نے گوریلا جہاد شروع کر دیا لیکن جہاد یا گوریلا تحریک کیلئے بیس کیمپ کی کمک پہنچانے والے تو شہید ہو چکے تھے ‘بہر حال جذبات کے اس طلاطم زدہ ماحول میں بھارتی مظالم سے ستائے ہوئے لیکن مزاحمت اور جذبہ انتقام سے سرشار ہزاروں نوجوان سیز فائر لائن عبور کر کے آزاد کشمیر پہنچناشروع ہو گئے
 اسکے ساتھ ہی5جنوری کو محترم قاضی صاحب مرحوم نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اپیل کی کہ 5فروری 1990ء کو پوری قوم اہل کشمیر سے اظہار یکجہتی کرے۔یوں پانچ فروری اظہار یکجہتی کی اس اپیل پر پہلے میاں نواز شریف صاحب اور بعد میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے لبیک کہتے ہوئے توثیق کی۔سرکاری سطح پر صوبوں اور مرکز میں بھرپور پروگرام ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اورجناب قاضی حسین احمد نے مظفر آباد میں الگ الگ بڑی ریلیوں سے خطاب کیا۔اس یکجہتی کے نتیجے میں نہ صرف عوامی سطح پر اہل کشمیر کو ایک حوصلے کا پیغام پہنچا بلکہ ریاستی سطح پر پاکستان میں تمام متعلقہ اداروں نے اس تحریک کی پشتیبانی کا فیصلہ کیا۔چند دن بعد پاکستان میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی جماعتوں نے ماسوائے جماعت اسلامی کے نہ مسئلہ کشمیر کو واضح طور منشور کا حصہ بنایا اور نہ انتخابی سرگرمیوں میں اس کی کوئی جھلک نظر آتی ہے۔ہاں البتہ جنرل باوجوہ ڈاکٹرائن کی بھارت کے حوالے سے مایوس کن اطلاعات جو ان کے جانے کے بعد سامنے آئیں کے ازالے کیلئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کے بیانات حوصلہ افزا ہیں لیکن بیانات سے زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے
جو درج ذیل ہو سکتے ہیں۔
٭پاکستان میں جاری موجودہ سیاسی محاذ آرائی کا خاتمہ کرتے ہوئے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔٭اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کا حصول جو مسئلہ کشمیر کے مقدمہ کی بنیاد ہے اور پاکستان کا قومی موقف رہا ہے پر سختی سے قائم رہا جائے اور ابہام پیدا کرنے والے فارمولے پیش نہ کیے جائیں۔٭ریاست کی وحدت کو ہر صورت برقرار رکھا جائے۔٭وزارت خارجہ میں فوکل پرسن کے طور پر ایک نائب وزیر خارجہ کا تقرر کیا جائے۔٭بین الاقوامی انسانی حقوق کونسل اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹس کی روشنی میں نیزپاکستان امریکہ ‘کینیڈا ‘ برطانیہ میں را (RAW)کارروائیوں کی روشنی میں بھارت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی حکمت عملی وضع کی جائے۔٭آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے نظام حکومت کو مزید با اختیار و باوسائل بنایا جائے ‘ نیز ریاست کے دونوں حصوں کو آئینی اور جغرافیائی اعتبار سے مربوط کیا جائے۔٭مشیر برائے رائے شماری کا تقرر کیا جائے جو آزاد کشمیر کے آئین کا تقاضا ہے۔٭آزاد کشمیر ریاست جموں وکشمیر کو تحریک آزادی کا حقیقی بیس کیمپ بنانے کیلئے حریت کانفرنس کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے تا کہ بین الاقوامی سفارتی محاذ پر کشمیری دستیاب پلیٹ فارمز پر اپنا مقدمہ خود پیش کر سکیں ‘ نیز سفارتی محاذ پر سرگرم کشمیری تنظیموں اور شخصیات کو باہم مربوط کیا جائے۔٭کشمیریوں کا حق مزاحمت بحال کیا جائے اس سلسلے میں ریاست پاکستان دنیا پر واضح کرے کہ پاکستان فریق ہونے کے ناطے کشمیریوں کی مدد کرنے کا پابند ہے ‘ بھارتی قبضے کے خاتمے کیخلاف تمام محاذوں پر وہ اہل کشمیر کے شانہ بشانہ ہیں۔٭بھارت کے عزائم کے توڑ کیلئے پوری قوم کو جہاد کیلئے تیار کیلئے کیا جائے ‘جہاد فی سبیل ہی پاکستان کی بقا اور کشمیر کی آزادی کا روڈ میپ ہے اس پر یکسوئی اختیار کی جائے۔

مزیدخبریں