5 فروری … یکجہتی کشمیر کا دن

مسئلہ کشمیر 76سال سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے دونوں ممالک کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں کئی بار مذاکرات ہوئے مگر مسئلہ جوں کا توں ہے بلکہ اس کی سنگینی میں  آئے روز اضافہ ہوریا ہے، ہندوستان کے ظلم اور زیادتیوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور کشمیر کا ہر گھر ہندوستان حکومت کے قہر کا نشانہ بن چکا ہے خطہ کشمیر خون سے لالہ زار ہے اور امن خواب بن چکا ہے۔
1947 میں جب تقسیم ہند کے نتجے میں دو آزاد ریاستیں ہندوستان اور پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہوا تو قرار پایا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کا حصہ ہوں گے جب کہ پانچ سو کے لگ بھگ آزاد اورنیم آزاد ریاستوں کے بارے طے پایا کہ مسلم اکثریتی آبادی والی ریاستیں پاکستان سے ملحق ہونے میں آزاد ہوں گی البتہ اگر کسی ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ہو اور حکمران غیر مسلم ہو تو ایسی صورت میں فیصلہ جغرافیائی حالات اور عوام کی مرضی سے ہوگا مگر ایک سازش کے تحت ریڈ کلف ایوارڈ کے جانبدارانہ فیصلہ سے ہندوستان کو گرداسپور ضلع کی بعض تحصیلیں دے کر  ہندوستان کی کشمیر تک غیر قدرتی راہ پیدا کر دی گئی اس سلسلے میں اس وقت کے وائسراے ھند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کردار اور ریڈ کلف کی سازش اب تاریخ کے صفحات پر پوری طرح عیاں ہو چکی ہے اور ریڈ کلف کے سیکرٹری کرسٹن فر جو اس کا عینی شاہد تھا نے بھی اپنے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں اس کی تصدیق کردی تھی۔
وادیِ کشمیر جسے جنت ارضی کہا جاتا ہے اور جس کے متعلق بادشاہ جہانگیر نے تزک جہانگیری میں لکھا ہے کہ اگر روئے زمین پر جنت نظیر خطہ ہے تو وہ وادی کشمیر ہے یہ وادی ہمیشہ سے اسلام کا گہوارہ رہی ہے مغلوں کے دور میں اسے صوبے کا درجہ حاصل رہا پھر جب انگریز حکمران بنے تو بھی اس کی الگ حیثیت قائم رہی ایک سو سال کے اقتدار کے بعد 1846 میں معاہدہ امرتسر کے تحت مہا راجہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کو  75 لاکھ نانک شاھی ( روپے) اور سالانہ چند بکریوں اور شالوں کے عوض فروخت کردیا- گلاب سنگھ نے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے پھر اس کے پوتے ہری سنگھ نے بھی یہی سلوک روا رکھا یہاں تک کہ کشمیری خود کو اس خاندان کا غلام سمجھنے لگے اس ڈوگرہ خاندان کا دور حکومت مسلمانوں کیلئے سیاہ دور ثابت ہوا مسلمانوں کو سیاسی معاشی تعلیمی اور سماجی طور پر ختم کرنے کی سعی ہوئی جبکہ برہمنوں کو جو کشمیری پنڈت کہلاتے تھے ہر طرح سے مضبوط بنایا گیا جس سیمسلمانوں کے صبر کاپیمانہ لبریز ھوگیا اور 1924 میں وائسرے ہند لارڈ ریڈنگ کو یاداشت پیش کی کہ انکے مسائل کا مدوا کیا جائے لارڈ ریڈنگ نے اس پر کمیٹی بنائی مگر اسکے جانے کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے یہ کمیٹی ھی ختم کردی جس پر مسلمانوں نے بھرپور احتجاج کیا مسلمان راہنما عبدالقدیر نے قیادت کی اور ریلی سے خطاب کیا جس پر اسے گرفتار کرلیا گیا 13 جولائی 1931 کو اس کے خلاف سری نگر جیل میں مقدمہ کی سماعت ھوئی تو مسلمانوں نے جیل کے باہر دھرنا دے دیا مگر ڈوگرہ حکمرانوں نے تشدد کی انتہا کردی اور گولیاں چلا دیں 13 افراد شہید ہوے اور بے شمار نذرزندان ہوئے جس پر پورے ہندوستان کے مسلمان اظہار یک جہتی کیلئے نکل آئے۔یہ تنازع آج تک بھی ختم نہیں ہوا ۔
کشمیر کے فلک بوس پہاڑ وں اور چناروں کی قطاروں سے اس وقت امید صبح آزادی کے امید افزا نغموں سے وادی کشمیر گونج رہی ہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ بھارت سینا کی شکست یقینی اور قریب تر ہے -اہل کشمیر کیمسلمانوں کی جدوجہد نے سب کو لاجواب کردیا ہے کہ اگر کشمیری آزادی چاہتے ہیں تو خود کیوں نہیں نکلتے وہ جس طرح خوابیدگی  کا لبادہ تار تار کرکے مجاہدانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں اب تو ساری دنیا ور طہ حیرت میں ہے اگر چہ ان کی یہ سعی گزشتہ 75 سالہ جدوجہد کا تسلسل ہیں مگر اب اس میں شدت بتاتی ہے کہ سحر ہونے کو ہے بعض عناصر خود مختار کشمیر کی بات کرکے اس تحریک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ان مشکل حالات میں کشمیر کی درو دیواروں پر پاکستان کے نعرے لکھنا اس بات کا اظہار ہے کہ وہ الحاق پاکستان کی جنگ لڑرہے ہیں یوں یہ تحریک تکمیل پاکستان کی ہے مگر ہماری بے حسی ملاحظہ ہو کہ ہم اس مسئلہ پر اتفاق رائے سے اعلان کرنے کی بجائے سیاست چمکا رہے ہیں کشمیر کا بھارت کے ساتھ رہنا تقسیم کے اساسی فارمولہ کے منافی ہے قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اس طرح یہ ہماری اپنی جنگ ہیتاریخ کا نازک موڑ ہمیں پکار رہا ہے کہ ھم فروعی مسائل سے بالا تر ہوکر آزادی کشمیر کیلئے کوئی ٹھوس کام کریں کشمیری جو امت رسول ہیں ان کا خون پکار رہا ہے کہ انہیں اسلام سے محبت اور ملت واحدہ سے تعلق کی سزا دی جارہی ہے۔ اگر دنیا میں کہیں بھی ایسی صورت حال ہوتی تو امریکی اور حقوق انسانی کے نام نہاد علمبردار آگے بڑھتے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا سہارا لیتے مگر جہاں خون مسلم ہو وہاں ان کے معیارات بدل جاتے ہیں  اور ان ممالک کا آپسی مسئلہ قرار دے کر الگ ہو جاتے ہیں فلسطین اور کشمیر اس کی واضح مثالیں ہیں ان حالات میں ہم کو مضبوط حکمت عملی سے اس جنگ میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہئیے۔

ای پیپر دی نیشن