5فروری ، قاضی حسین احمد کا صدقہ جاریہ

کشمیر ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اس کی آزادی کی جنگ لڑی ، ہمارے قبائلی علاقوں کے حریت پسندوں نے وہ علاقہ آزاد کرایا جسے آج ہم آزاد کشمیر کہتے ہیں، کشمیر کی آزادی تکمیل پاکستان کا ایجنڈا ہے اور ہمارے بزرگوں کے خواب کی تعبیر ابھی ادھوری ہے۔ کشمیر کی آزادی کیلئے پاکستانی قوم نے بلا تفریق رنگ و نسل اور پارٹی کی سیاست سے بالاتر ہوکر کام کیا ہے یہی وجہ ہے کہ 5 فروری کیلئے جب اس وقت کے جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے اعلان کیا تو پوری قوم نے بیک آزاد ہو کر ان کی دعوت پر لبیک کہا۔ 5فروری کا اعلان کیسے ہوا ؟ آزادی کشمیر کے لیے کام کرنے والے ان تھک راہنما ڈاکٹر غلام بنی فائی اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، یہ 1989ء کا زمانہ تھا جب الیف الدین ترابی، عبدالرشید ترابی، ڈاکٹر غلام نبی فائی اور ڈاکٹر ایوب ٹھاکر منصورہ آ کر قاضی حسین احمدسے ملاقاتیں بھی کرتے تھے اور کشمیر کی اندرونی صورت سے بھی آگاہ کرتے تھے۔ اس وقت وادی کے اندر سے جو ایک نئی انتفاضہ کی تحریک شروع ہوئی تھی اس سے پاکستان کے لوگ بالکل بے خبر تھے، لیکن 1989ء کے اوائل میں دسمبر اور جنوری کی یخ بستہ راتوں میں اچانک ہی بہت سارے نوجوان فراسٹ بائٹ یعنی برفانی موسم کا شکار ہو کر جب بیس کیمپ مظفر آباد پہنچے تو پتا چلا کہ وادی میں بیداری کی ایک بڑی لہر آچکی ہے۔افغانستان کا جہاد اس وقت اپنے عروج پر تھا۔ وہاں کے مظلوموں کی ہمت اور جرأت کو دیکھ کر خطے کے دوسرے مظلوم لوگوں نے بھی ہمت پکڑی اور بڑی تعداد میں کشمیری نوجوانوں نے پاکستان کا رخ کیا۔ وہ افغانستان بھی گئے اور اپنے علاقے کی آزادی کی تحریک میں بھی انھوں نے جان ڈال دی۔ بڑی تعداد میں جب نوجوان پاکستان آئے تو یہاں بیس کیمپ میں ان کے لیے کوئی بھی انتظام موجود نہیں تھا۔ جماعت اسلامی نے دامے درمے سخنے اپنے کارکنان کے ساتھ پورے ملک میں بیداری کی لہر پیدا کی اور ان مظلوم کشمیریوں کے حق میں انھوں نے رائے عامہ بھی بیدار کی اور ایک بھر پور مہم بھی چلائی۔
انھی دنوں 5جنوری 1990ء کو ملتان ایئر پورٹ پر جماعت اسلامی کے زیراہتمام ایک اچانک پریس کانفرنس میں اْس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے پوری قوم کو کشمیریوں کی پشتیبانی کی اپیل کی۔ ڈاکٹر غلام نبی فائی مزیدکہتے ہیں کہ میں اور ڈاکٹر ایوب ٹھاکر محترم قاضی صاحب سے ملنے منصورہ آئے تھے تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کشمیر کی تاریخ میں کون سا ایسادن ہے کہ جس کو ہم ادھر پاکستان میں منا سکیں، تو کہتے ہیں کہ میں نے ان کو کہا کہ ایک 5 جنوری ہے۔
5 جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کے پاک و ہند کمیشن نے کشمیر پر قرارداد پاس کی اور دوسری 21 اپریل 1948ء جب سلامتی کونسل کشمیر پر قرارداد نمبر 47 قبول کی تو ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ آغا جان نے کہا کہ پانچ جنوری تو گزر چکا ہے، لیکن ہم ان شاء  اللہ 5فروری کو اس دن کا اعلان کرتے ہیں اور ہمارے پاس یہ پندرہ بیس دن ہیں۔ پھر وہ ہمیں عبداللہ نصیف عمر نصیف جو رابطہ عالم اسلامی کیسیکرٹری جنرل تھے اور میاں نوازشریف صاحب کے پاس بیٹھے تھے، ملاقات کے لیے ہم دونوں کو بھی لیگئیاور ان کو کہا کہ ہم کشمیر کے لیے پورے عالم اسلامی کو متحرک کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی، ان کی خواہش تھی کہ بے نظیر بھٹو ہی اس کااعلان کریں۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں حیران ہوا کہ کس قدر بے غرض اور بے لوث انسان ہیں کہ اللہ نے انھیں موقع دیا ہے۔ مگر یہ دوسروں کو آگے کر رہے ہیں۔ اْنھوں نے کہا کہ اس تحریک میں سب لوگوں کو شامل ہونا چاہیے، یہ صرف جماعت اسلامی کی تحریک نہیں بلکہ پوری قوم کی تحریک ہے۔تو کہتے ہیں کہ مجھے بہت زیادہ حیرت ہوئی کہ ایک لیڈر کا اتنا ویڑن ہے کہ اپنے آپ کو پیچھے کر کے اپنیمقاصد کو آگے رکھتا ہے‘ اسی لیے اللہ نے 5 فروری کو قاضی صاحب کا کشمیریوں کے لیے تحفہ بنا دیا ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میں جب قومی اسمبلی میں اپنا حلف لینے جا رہی تھی تو مجھے آغا جان نے تین نصیحتیں کی تھیں کہ بیٹا! اپنی ذات کو پیچھے رکھنا اپنے مقاصد کو آگے رکھنا۔ اللہ بہت قدردان ہے وہ تمھاری ذات کو بھی پیچھے نہیں کرے گا۔ تم نے اپنی نیت بھی خالص رکھنی ہے اور اپنے مقصد پر نگاہ رکھنی ہے۔ دوسری نصیحت مجھے یہ کی تھی کہ کوئی بھی بات تمھیں معلوم ہو تو تم نے اسے فوراً اپنی قیادت تک پہنچانا ہے اور تنہا کسی چیز کی ذمہ داری نہیں لینی اور تیسری نصیحت یہ کی تھی کہ کسی بھی جگہ پر اکیلے نہیں جانا، اپنے گروپ کے ساتھ جانا ہے۔
اس طرح ذمہ داریاں بھی بٹ جاتی ہیں اور تمھیں تنہا کسی چیز کی جواب دہی بھی نہیں کرنا پڑے گی۔ یہ تین نصیحتیں میں نے اپنے پلے باندھ لیں۔ بہر کیف اس طرح اس دن کا اعلان ہوا۔ پھر مجھے یاد ہے کہ جب دو سال بعد 1993ء کا 5فروری آیا تو الیکشن کا بھی زمانہ تھا اور اسلامک فرنٹ بھی ان دنوں بن رہا تھااور پاسبان بھی بنی ہوئی تھی تو لوگ بہت زیادہ متوجہ تھے۔ لوگ اپنے زیور بھی اور فنڈبھی آزادی کشمیر کی تحریک کے حوالے سے جمع کروا رہے تھے۔
جنوری 1993ء کا زمانہ تھا، ایک دفعہ ایک دلہن نے قیمتی زیور لا کر جہادِ کشمیر کے لیے دے دیا اور پہلی دفعہ ا?غاجان نے ایک ہیلی کاپٹر کرائے پر لیا تھا اور چار شہروں پشاور، راولپنڈی، اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی میں 5 فروری کے جو جلسے منعقد ہوئے تھے ایک ہی دن ان چاروں شہروں میں پہنچے اور خطاب بھی کیے اور اس دلہن کا جو سونے کا بڑا سا ہار تھا وہ بھی دکھایا اور واپس آکر انھوں نے جماعت اسلامی کے بیت المال میں داخل کرا دیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد اسی دلہن نے اپنے ہار کی رسید کا مطالبہ کیا اور کہا کہ مجھے اس ہار کی رسید نہیں ملی، پتا نہیں کہ میرا وہ ہار کدھر گیا۔
آغا جان گھر آئے تو کہا کہ وہ بیت المال میں ہے۔ تم لوگ ذرا اس کی رسید تلاش کرو کہ وہ کدھر ہے۔ گھر میں بھی ان کے بریف کیس میں چیزیں ہوتی تھیں، ہم نے بہت ڈھونڈا، نہیں ملی، لیکن جب وہ بیت المال گئے تو میں نے انھیں یاد دلایا کہ آغا جان آپ جس 5 فروری کو ہیلی کاپٹر میں جلسوں کے لیے گئے تھے۔ اْس میں آپ نے وہ ہار رکھا ہوا تھا۔ میرے پاس اْس کی تصاویر محفوظ ہیں تو جب وہ بیت المال گئے تو اْنھیں اْسی دن کی وہ رسیدیں مل گئیں اور پھر وہ دینے والے بہت شرمندہ ہوئے کہ ہم نے ویسے ہی قاضی صاحب پر شک کیا۔
ہمارے ناظم مالیات مسعود احمد خاں تھے، انھوں نے پھر وہ رسید بھی دلہن کو دی اور اس کو کہا کہ اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کو اپنے ہار کی جو قیمت بنتی ہے یا سونا آپ کو واپس کر دیں تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ وہ بڑی شرمندہ ہوئی اور کہا کہ نہیں، مجھے لگا کہ قاضی صاحب نے میرے اس ہار کا پتا نہیں کیا کیا۔ 

ڈاکٹر سمحیہ راحیل قاضی

ڈاکٹر سمحیہ راحیل قاضی

ای پیپر دی نیشن