یومِ یکجہتی کشمیر : اقوامِ متحدہ خاموش تماشائی کیوں؟

مقبوضہ وادیِ کشمیر میں گزشتہ پون صدی سے زائد عرصے سے جاری بھارتی جبر و تسلط کے خلاف کشمیری عوام آج 5 فروری کو پاکستان، بھارت اور مقبوضہ وادی سمیت دنیا بھر میں یومِ یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال یہ دن سرکاری اور نجی سطح پر خصوصی اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے جس کا مقصد بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیری بہنوں بھائیوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار اور ان پر بھارتی مظالم کی جانب اقوام عالم کی توجہ مرکوز کرانا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آج کے دن کی مناسبت سے خصوصی اشاعتوں اور پروگرامز کااہتمام کیا گیا ہے جبکہ بیرن ملک قائم پاکستانی مشنز کی جانب سے یوم یکجہتی کشمیر کی مناسبت سے خصوصی ریلیوں، جلسوں، سیمینارز اور تصویری نمائشوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ہر سال مقبوضہ وادی میں یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پاکستان کے ساتھ اظہار محبت کیا جاتا ہے اور آج بھی مقبوضہ وادی میں جوش و جذبے کے ساتھ پاکستان سے محبت اور یکجہتی کے اظہار کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس بھارت نے نام نہاد یوم جمہوریہ کے موقع پر کشمیریوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کے جن ریاستی ہتھکنڈوں کا آغاز کیا۔ ان کے تسلسل میں کوئی کمی نہیں آنے دی اور کالے قانون کے تحت کشمیریوں کے گھروں میں چھاپے اور تلاشی کی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں جن کے دوران نہتے کشمیریوں کو بے دریغ گولیوں کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما غلام احمد گلزار کے بقول بھارتی حکومت مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ہندو جنونیوں کو ان کی جگہ آباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ 
کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے بھرپور اظہار کے لیے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1975ء میں اپنے دور حکومت میں یہ پرعزم دن منانے کا آغاز اس نام نہاد معاہدۂ کشمیر کیخلاف ملک گیر ہڑتال کی صورت میں کیا تھا جو اس وقت کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی کے ساتھ ملی بھگت کے تحت مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں پیش کیا تھا ، بعدازاں باضابطہ طور پر یوم یکجہتی کشمیر منانے کا سلسلہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں 5 فروری 1990ء کو امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی اپیل پر شروع ہوا جسے حکومت نے اپنی کشمیر پالیسی کا حصہ بنایا چنانچہ اب ہر سال حکومت کے زیراہتمام یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے جس میں قومی سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم شریک ہو کر غاصب بھارت کو یہ ٹھوس پیغام دیتی ہے کہ کشمیر پر اس کا تسلط بزور قائم نہیں رہ سکتا اور یواین قراردادوں کی روشنی میں استصواب کے ذریعے کشمیری عوام نے بالآخر خود ہی اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ کشمیری عوام نے گزشتہ 76 سال سے زائد عرصہ سے غاصب اور ظالم بھارتی فوجوں اور دوسری سیکورٹی فورسز کے جبر و تشدد کو برداشت کرتے، ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے اور متعصب بھارتی لیڈران کے مکر و فریب کا مقابلہ کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے، اس کی پوری دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ اس خطۂ ارضی پر آزادی کی کوئی تحریک نہ اتنی دیر تک چل پائی ہے، نہ آزادی کی کسی تحریک میں کشمیری عوام کی طرح لاکھوں شہادتوں کے نذرانے پیش کیے گئے ہیں اور نہ ہی آزادی کی کسی تحریک میں عفت مآب خواتین نے اپنی عصمتوں کی اتنی قربانیاں دی ہیں جتنی کشمیری خواتین اب تک ظالم بھارتی فورسز کے ہاتھوں لٹتے برباد ہوتے اپنی عصمتوں کی قربانیاں دے چکی ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک انسانی تاریخ کی بے مثال تحریک ہے جس کی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے منزل بھی متعین ہے۔ اس تناظر میں کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی درحقیقت پاکستان کی تکمیل و استحکام کی جدوجہد ہے جس کا دامے درمے قدمے سخنے ہی نہیں، عملی ساتھ دینا بھی پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کی بنیادی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ 
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا جبکہ بانیِ پاکستان قائداعظم نے کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور جب اس شہ رگ پر 1948ء میں بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو قائداعظم نے افواج پاکستان کے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو دشمن سے شہ رگ پاکستان کا قبضہ چھڑانے کے لیے کشمیر پر چڑھائی کا حکم بھی دیا۔گریسی نے اس حکم پر عمل کیا ہوتا تو کشمیرکا مسئلہ کبھی پیدا ہی نہ ہوتا جبکہ بھارت نے کشمیر پر جبراً قبضہ جما کر وادیِ کشمیر کو متنازعہ بنایا اور پھر خود ہی اس مسئلہ کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کر لیا۔ جس پر یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور کشمیر میں استصواب کے اہتمام کا حکم دیا تو بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔ بھارتی جبر کے انھی ہتھکنڈوں نے کشمیر کی تحریک آزادی کو مہمیز دی اور آزادی کے لیے کشمیری عوام کی تڑپ کبھی سرد نہیں ہونے دی۔وہ اپنی آزادی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے سمیت جو بھی ہو سکتا ہے، کر رہے ہیں۔انھوں نے بھارتی تسلط کبھی قبول نہیں کیا۔
کشمیری عوام کسی ظلم، بربریت اور سفاکیت کو خاطر میں نہ لائے تو 5 اگست 2019ء کو مودی سرکار نے شب خون مار کر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی اور اسے بھارت میں ضم کردیاجس کے بعد کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے مقبوضہ وادی میں مزید بھارتی فوج بھجوا کر کشمیریوں کو گھروں میں محصور کر دیا۔ آج مقبوضہ وادی میں بھارتی محاصرے کو 1644 دن گزر چکے ہیںمگر کشمیریوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی لرزش پیدا نہیں ہوئی۔ مقبوضہ وادی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کررہا ہے۔ کشمیری اس کے باوجود حق آزادی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ جبکہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 76 سال سے جاری اس کے مظالم روکنے کے لیے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے اب تک کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کیا۔ نتیجتاً ہندو توا کے ایجنڈے پر گامزن بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوئے ہیں۔ اس نے کشمیریوں کے استصواب کے حق کے لیے یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی منظور شدہ درجن بھر قراردادوں کو عملی جامہ پہنانا تو کجا، انھیں پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں دی اور کشمیر کے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی ہٹ دھرمی برقرار رکھی ہے۔
1948ء میں خودمختار ریاست جموں و کشمیر میں اپنی افواج داخل کر کے اس کے غالب حصے پر ناجائز تسلط جمانے کا اصل مقصد پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا تھا جبکہ پاکستان نے شروع دن سے ہی کشمیر پر یہ اصولی موقف اپنایا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام نے خود کرنا ہے اس لیے اقوام متحدہ کی جانب سے انھیں دیے گئے استصواب کے حق کو تسلیم کر کے بھارت مقبوضہ وادی میں کشمیری عوام کے لیے رائے شماری کا اہتمام کرے مگر بھارت نے آج تک کشمیریوں کو استصواب کے حق سے محروم رکھا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ استصواب کی صورت میں کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے۔ پاکستان بھی ان کے اسی صادق جذبے کی لاج رکھتے ہوئے ان کی بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں ان کا دامے درمے قدمے سخنے اور سفارتی محاذ پر بھرپور ساتھ دے رہا ہے جس کا بھارت سرکار نے بدلہ لینے کے لیے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں اور اسے سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا جس کے بعد وہ باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہو گیا۔ 
اقوام متحدہ کی مؤثر نمائندہ عالمی ادارے کی حیثیت تب ہی تسلیم ہو پائے گی جب اس کے روبرو آنے والے اس کے رکن ممالک کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے اس کی قراردادوں اور فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد ہو گا۔ اندریں حالات، اقوام متحدہ کے رکن ممالک بالخصوص بڑی طاقتوں کی قیادتوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ دنیا کے تنازعات حل کرانے کے لیے اب تک اقوام متحدہ کو کیوں فعال نہیں بنا پائے۔ علاقائی اور عالم امن کی خاطر کشمیر، فلسطین، افغانستان اور اسلاموفوبیا کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی ترجیح اول ہونی چاہیے۔ آج کے یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا مقصد بھی اقوام متحدہ اور اس کے رکن بالخصوص بڑے ممالک کی توجہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کی جانب مبذول کرنا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کی درجن بھر قراردادیں بھی دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہو رہیں تو اس نمائندہ عالمی ادارے کی حیثیت چہ معنی دارد؟

ای پیپر دی نیشن