ہندوستانی نوآبادیاتی استعمار اور کشمیر

 غیر کی غلامی میں جینے سے بڑا کوئی عذاب اور کوئی تکلیف نہیں۔ یہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے بلکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت بھی ایسا غیر انسانی اور ظالمانہ عمل ہے جس کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ غیر قانونی طور پر کسی علاقے کو قبضے میں رکھنے کے خلاف کثیر تعداد میں قوانین موجود ہیں ۔ تاہم ایک کروڑ سے زائد کی ابادی والا علاقہ جموں و کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جو پچھلے 75 برس سے ہندوستان کے ظالمانہ اور غاصبانہ تسلط کے زیر اثر ہے ۔یہ وہ بدنصیب خطہ ہے جہاں کئی نسلیں ریاستی دہشت گردی، ظلم و جبر اور قید و بند کی تاریکی میں گزر گئیں۔ اس انسانیت سوز تسلط کے دوران ہندوستانی افواج نے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو قتل کیا، جبکہ ہزاروں نوجوان اغوائ اور زخمی ہوئے اور لاتعداد عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ من چاہی گرفتاریاں، محاصرے، عیدوں تہواروں اور اجتماعات پر پابندی اور پیلیٹ گن کے اندھا دھند استعمال سمیت ظالمانہ جسمانی تشدد کشمیر میں معمول کی بات بن چکی ہے۔آزادی اور خودمختاری سے عبارت آج کی جدید دنیا میں، مقبوضہ جموں و کشمیر، انسانی حقوق کے ایک بلیک ہول کی طرح ہے۔ ایک ایسا بلیک ہول جس میں کشمیری عوام دکھ اور تکلیف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ اور یہ سب ظلم و ستم ہندوستان کے ہاتھوں ہو رہا ہے، مقصد کیا ہے، کہ کشمیریوں کی اواز کو دبا کر اور ان کو ان کے بنیادی انسانی حقوق اور حق خود ارادیت (جو کہ ان کو بہت سی قراردادوں میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی دے چکی ہے) سے محروم کر کے ان پر قبضہ جمائے رکھا جا سکے۔ 
جموں و کشمیر کے خوبصورت علاقے میں غم کی اس طویل داستان کا آغاز سن 1947 سے ہوا۔ تقسیم ہند کا کلیہیہ تھا کہ مسلم اکثریت والے وہ علاقے جو جغرافیائی وحدت بھی رکھتے ہیں کو ملا کر ایک الگ اکائییعنی پاکستان کو قائم کیا جائے گا۔ تاہم، جموں و کشمیر کے غیر مسلم حکمران نے مسلم اکثریتی کشمیری عوام کی خواہشات کے خلاف ہندوستان کے ساتھ ساز باز کی اور الحاق کر لیا۔ یوں ہندوستان نے کشمیر میں اپنی فوجیںاتاریں اور اس علاقے میں غیر قانونی قبضے کے بھیانک اور طویل باب کا آغاز کیا۔جب یہ معاملہ اقوام متحدہ کے پاس پہنچا تو ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا بیان تھا "ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ اخر کار کشمیری عوام کو ہی کرنا ہے۔" ، “ہم نہ صرف کشمیری عوام سے بلکہ پوری دنیا سے یہ وعدہ کرتے ہیں، ہم نہ اس وعدے سے پھر سکتے ہیں اور نہ پھریں گے۔" 
اس معاملے ہر بحث کرتے ہوئے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس مسئلے کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کے لےک مقبوضہ علاقوں میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کرانے کے لےر کئی قراردادیں منظور کیں۔ تاہم، جب ہندوستان نے یہ دیکھا کہ عوام کی رائے ہندوستان سے الحاق کے خلاف ہے تو ہندوستان نہ صرف کشمیریوں بلکہ دنیا سے کیے گئے اپنے وعدوں سے بھی مکر گیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک ہندوستان اپنے غیر قانونی قبضے کو طول دینے کے لے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے ۔کشمیریوں پر ظلم و ستم کے سلسلے میں سب سے جارحانہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب چار برس پہلے 5 اگست 2019 کو علاقے کی آئینی حیثیت بدلنے کی غیر اخلاقی و غیر قانونی کوشش کرتے ہوئے ہندوستان نے لاکھوں کی تعداد میں مزید فوجی جموں و کشمیر بھیجے ۔ نئی دہلی کے ان غیرقانونی اقدامات کو سہارا دینے کے لے اور ان کے ردعمل میں کشمیریوں کی مزاحمت کو کچلنے اور انہیں ، مواصلات و قانونی چارہ جوئی جیسے بنیادی حقوق سے محروم کرنے، قید و بند میں ڈالنے اور ماورائے عدالت قتل کرنے کے لےس ہندوستان کو ان مقبوضہ علاقوں میں کثیر تعداد میں یہ فوج بھیجنی پڑی ۔ہندوستانی نظم و نسق نے کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی کا تناسب بگاڑنے کے لےق وہاں غیر مسلم اور غیر کشمیری آباد کاری کی کوششیں شروع کر دیں ہیں۔اوراب ہندوستان نے مقبوضہ علاقے میں ایسی پالیسیوں کا اطلاق شروع کر دیا ہے جس سے کشمیریوں کو ان کے مذہب، اقدار ، زبان اور ثقافت سے بھی محروم کر دیا جائے ۔ہندوستان کے یہ خوفناک اور انسانیت سوز اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، بشمول قرارداد نمبر 38 47,51,91 اور 122 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ گھناو¿نے اقدامات ، انسانیت ، اخلاقیات اور بین الاقوامی قوانین بالخصوص چوتھے جینیوا کنونشن کی بھی خلاف ورزی کے دائرے میں آتے ہیں۔ علاوہ ازیں ، ہندوستانی حکومت کییہ سب کاروائیاں 1972 کے پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے شملہ معاہدے کی بھی صریحا’ خلاف ورزی ہے۔ دنیا بھر کے کشمیریوں نے حالات ٹھیک ہونے کے ڈرامے کے پردےکے پیچھے چھپے ان ہندوستانی حربوں کو نہ صرف آشکار کیا ہے بلکہ کھل کر ان کی مزمت بھی کی ہے۔ہندوستان کے تسلط اور غاصبانہ قبضے کے دوران کشمیریوں پر گزرنے والے ظلم و ستم اور تلخ حالات کو نہ صرف بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے مختلف دستاویزات، رپورٹوں، کالموں، کتابوں اور مضامیں میں محفوظ کیا گیا ہے بلکہ دنیا کے مختلف رہنماو¿ں اور قائدین نے بھی اپنی تحریر و تقریر میں ان مظالم کے بیان اور مذمت کو جگہ دی ہے۔ انسانیت نواز گروہوں اور تنظیموں نے تو متعدد بار ہندوستان کی طرف سے کشمیریوں کی نسل کشی کی نشاندہی بھی کی ہے لیکن اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کے مظالم جاری ہیں۔بلکہ الٹا یہ اثر ہو رہا ہے کہ ہندوستان میں آرایس ایس اور بی جے پی کی ہندوتوا نواز حکومت کی اپنی اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کے خلاف کاروائیاں اور مظاہم بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ نئی دہلی کی جابرانہ اور مکارانہ پالیسیاں صرف جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن نہیں کر رہیں بلکہ یہ ہندوستان بھر کی اقلیتوں کے لےن ایک عذاب اور ظلم کی ایک کالی رات کے مترادف ہیں۔ بین الاقوامی امن اور قانوں کے رکھوالوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور سسکتی ہوئی انسانیت کی طرف توجہ کرنی چاہے
1.4 ارب کی آبادی والا یہ ملک ہندوستان جس راہ پر چل پڑا ہے اس کو دیکھ کر کسی کے لےییہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے برسوں میں خطے کی حالت اور عالمی امن کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے ییں۔
دہشت گردی اور نفرت کی پالیسیوں کے بارے میں ایک بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ایک بار اس کا آغاز یا پرچار کر دیا جائے تو پھر اس کو قابو کرنا کسی کے بس میں نہیں رہتا اور پھر اس کی قیمت آنے والی نسلوں کو اپنی خون سے چکانیپڑتی ہے۔ نفرت، نسل پرستی اور تشدد کا پرچار کرنے والے عناصر ریاستی ہوں یا غیر ریاستییہ فرینکسٹائن عفریت کی مانند ہوتے ہیں جو بالآخر اپنے خالق کو ہی پڑ جاتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ہوتا ہے، یہ ترکی میں اردگان کے ساتھ ہوا، یہ امریکہ اور افغان مجاہدین کے سلسلے میں ہوا وہ مجاہدین جو بعد میں طالبان کا روپ اختیار کر گئے اور یہی روس میں ویگنر گروپ کے معاملے میں بھی آئے۔دنیا اس وقت سیاسی اور معاشی بحرانوں سے دوچار ہے۔ عالمی امن اور نظم و نسق کے لے ضروری ہے کہ پرانے اور حل طلب مسائل کو پر امن طریقے سے حل کر کے ان سے جان چھڑائی جائے۔ روسو نے کہا تھا "انسان آزاد پیدا ہوا تھا لیکن ہر طرف زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔" مطلب یہ کہ انسان پیدائشی طور ہر ا?زاد ہے تو اسے ایک ا?زاد زندگی گزارنے کا حق بھی حاصل ہے ۔غیر کے قبضہ و تسلط میں جینا، مسلسل خوف میں جینا ہے اور یہ انسانی تہذیب و ارتقاء کے منافی ہے۔ ہندوستان اگر یہ بنیادی حقیقت سمجھ لیتا ہے تو یہ نہ صرف ہندوستان اور خطے کے مفاد میں ہو گا بلکہ اس سے عالمی امن و سلامتیپر بھی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن