نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان
لیاقت بلوچ
مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کا ایک نامکمل ایجنڈہ ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر قیامِ امن کو جن مسائل سے شدید خطرات لاحق ہیں ان میں سے بلاشبہ مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے۔ تین ایٹمی قوتوں (پاکستان، بھارت اور چین) کے بیچ واقع خطہ جنت نظیر– وادی کشمیر – پر اس وقت تک جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے جب تک اس دیرینہ مسئلہ کو وہاں کی عوام کے خواہشات کے مطابق حل نہیں کردیاجاتا۔ بدقسمتی سے تقسیمِ ہند کے وقت ریڈکلف ایوارڈ کے دوران ہندو اور انگریز سامراج کی باہمی ساز باز کے نتیجے میں خطہ کشمیر کے پاکستان سے طے شدہ معاہدے کے تحت الحاق کی بجائے وادی میں ہندو فوج کی کثیر تعداد بھیج دی گئی ۔یہ پہلی جنگ 05 جنوری 1949 تک جاری رہی۔ دونوں اطراف سے بھاری جانی و مالی نقصان اور بھارتی فوج کے سر پر شکست کے منڈلاتے بادل کو دیکھتے ہوئے بھارتی قیادت نے ایک سازش کے تحت اقوامِ متحدہ کا دروازے پر دستک دی اور بالآخر اقوامِ متحدہ کے زیر نگرانی جنگ بندی کا اعلان ہو گیا ۔اقوامِ متحدہ نے بھارتی واویلا پر 1948 میں عارضی جنگ بندی اس وعدے پر کرائی کہ کشمیری عوام کو استصوابِ رائے کا حق دیا جائے گا ۔ مگر افسوس کہ اقوامِ متحدہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی اپنے اس وعدے پر عملدرآمد نہ کراسکا۔بظاہر دنیا بھر میں قیامِ امن کا ضامن اقوامِ متحدہ کا ادارہ ہے مگر تاریخی طور پر یہ چند بڑی طاقتوں کی جاگیر اور آماجگاہ بن چکا ہو۔ سابق سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد عملاً یہ ادارہ امریکہ کی لونڈی کا کردار ادا کرتا چلاآرہا ہے۔ظلم وتشدد کے اس عہد میں کشمیر سے لے کر فلسطین میں غزہ کے عوام روز لاشوں کو کندھا دیتے اور احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستانی قوم 1990ءسے ہر سال متواتر یومِ یکجہتی کشمیر پاکستان سمیت دنیا بھر میں مناتی چلی آرہی ہے۔ 05 اگست 2019 کو نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت کا کشمیریوں کی جداگانہ حیثیت سلب کرنے کا اقدام ،آرٹیکل 370 کو آئین سے نکال کر ریاستِ جموں و کشمیر کو 3 حصوں میں تقسیم کرکے اسے بھارت کا علاقہ قرار دے چکا ہے۔بھارت کے اس انسانیت کش اقدام پر دنیا بھر میں موجود کشمیری و پاکستانی عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اورہر طرف صدائے احتجاج بلند کیا گیا ہے۔
کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے آج دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔مگر افسوس ہمارے حکمرانوں کا طرزِ عمل بچگانہ اور کشمیری عوام اور پاکستانی قوم کی امنگوں کے بالکل برعکس رہا ہے۔سابق وزیر اعظم نے اس اہم موقع پر بین الاقوامی برادری کو متحرک کرنے اور مسئلہ کشمیر کو سیاسی، سفارتی ذرائع سے مو¿ثر بین الاقوامی فورمز پر بھرپور انداز میں اٹھانے کی بجائے ایسے بیانات دیے جو کشمیریوں کے زخم پر نمک پاشی کے مترادف تھے۔ انہوں نے پرعزم اور پرجوش کشمیری نوجوانوں کی طرف سے غاصب بھارتی سرکار کے خلاف بطور احتجاج کنٹرول لائن تک جانے کی خواہش کو غداری قرار دیا اور ایسا کرنے والوں کو گرفتار کرنے کی دھمکیاں دیں۔ نیز حسبِ دستور کشمیری عوام سے جھوٹے وعدے کیے کہ وہ اس دفعہ اقوامِ متحدہ میں جاکر مسئلہ کشمیر کو حل کرالیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔اس کے برعکس کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کے سامنے مقبول پاکستانی مو¿قف رکھنے کی بجائے سابق وزیر اعظم نے بھی مودی سے ہی امن کی توقعات وابستہ کرلیں، جس پر کشمیری اور پاکستانی عوام نے انہیں خوب آڑے ہاتھوں لیا اور اس غیرذمہ دارانہ، ریاست مخالف بیانیہ پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔مودی سے امن کی توقعات رکھنے والی ہماری سابقہ حکومت اس قدر رجائیت پسندی کا شکار ہوئی کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مسئلہ کشمیر اور وہاں ہونے والے بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے پیش ہی نہ کرسکی، مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی سفارتی تیاری اس قدر کمزور ہے کہ اِسے ثالثی کے لیے بار بار امریکا کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے بھی ثالثی کی بات کی۔ کسی بھی طرح کی ثالثی کے لیے ضروری ہے کہ تنازع کے تمام فریق ثالثی کو قبول کریں۔ لہٰذا مودی سرکار کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر کسی بھی ثالثی کو ماننے سے صاف انکار کردیاگیا۔مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق پاکستانی عوام کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ کشمیریوں کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیا جائے، اور اس کے لیے کشمیر میں ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ کشمیری عوام یہ فیصلہ خود کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ بہت ہی مثالی صورت حال ہوگی۔ لیکن بھارت کی طرف سے کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے مسلسل انکار اور پاکستانی حکومت کی عدم توجہی سے آج حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ کشمیر کی خودمختاری بھی چھین لی گئی ہے جس کے بعد ریفرنڈم کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔حکومت کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر جیسے دیرینہ علاقائی اور پاکستان و بھارت کے مابین بنیادی مسئلے کو کشمیری عوام اور پاکستانی قوم کے دیرینہ موقف کے مطابق حل کرکے تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے لکھوائے ورنہ یہ سعادت تو آئندہ آنے والے کسی نہ کسی حکمران کے حصے میں آہی جائے گی، ان شاءاللہ، لیکن موجودہ حکمران بہرحال اس بہت بڑی اور تاریخی کامیابی سے محروم رہیں گے۔کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر پاکستان کو عالمی اور علاقائی سطح پرمندرجہ ذیل سفارتی، سیاسی کوششیں فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔وادی میں پچھلی سات دہائیوں سے جاری کشیدگی کو کم کرنے اور کشمیری عوام پر جاری بھارتی ظلم و بربریت کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں قائم پاکستانی سفارت خانوں کے ذریعے مو¿ثر سفارت کاری کی جائے۔مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ نے کم و بیش 30 قراردادیں پاس کی ہیں اب اقوامِ متحدہ کی ذمہ داری ہے وہ اپنے وعدوں پر عمل کرے اور کشمیری عوام کو رائے شماری کا حق دیا جائے۔