اپوزیشن لیڈر، آدھا وزیراعظم؟

جمہوری حکومت میں اگر وزیراعظم ذمہ دار ہے تو اپوزیشن لیڈر بھی کچھ کم ذمہ دار نہیں۔ گیلانی صاحب حکومت کرنے میں ناکام ہیں تو چودھری نثار بھی اپوزیشن کرنے میں ناکام ہیں۔ وزیراعظم گیلانی صدر زرداری کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے۔ اور اپوزیشن لیڈر چودھری نثار نواز، شریف کو بہت نقصان پہنچا چکے ہیں۔ انہوں نے الطاف حسین کے خلاف غیر ضروری اور ذاتی باتیں کرکے بات نواز شریف کے گھر تک پہنچا دی۔ صدر جنرل مشرف کے حوالے سے بھی نواز شریف کے لئے مشکلات پیدا کیں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ”ہم حکومت کو سہارا نہیں دیں گے اور اسے غیر مستحکم بھی نہیں کریں گے۔“ تو پھر آپ کیا کریں گے؟ حکومت نے کچھ نہیں کیا تو اپوزیشن نے بھی کچھ نہیں کیا۔ اپوزیشن کے لئے چودھری نثار کی وجہ سے نواز شریف نے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سنے۔ اب فرینڈلی اپوزیشن کے ماہر سیاستدان مولانا فضل الرحمان بھی اپوزیشن میں آ گئے ہیں۔ انہوں نے صدر جنرل مشرف کے وزیراعظم شوکت عزیز کی جتنی اپوزیشن کی۔ اس سے کم اپوزیشن نہیں کریں گے۔ انہوں نے جتنی ایمانداری سے 17ویں ترمیم منظور کرائی۔ انتخابی جمہوریت دوستی سے 18ویں ترمیم منظور کرائی۔ اب چودھری نثار زیادہ آسودہ ہوں گے۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گئے دیوانے دو۔ حکومت اور اپوزیشن میں بیک وقت رہنا مولانا نے ہی ممکن بنایا۔ چودھری نثار اور نواز شریف مل کر بھی اس امکان کو اعزاز نہیں بنا سکے۔ لوگ حکومت سے مایوس ہیں تو اپوزیشن سے بھی مایوس ہیں۔ لوگ نواز شریف کے لئے بے قرار ہیں تو بے زار بھی ہیں۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ ن نے کوئی واضح پوزیشن اختیار نہیں کی۔ بلکہ دنیا بھر میں اپوزیشن گڈ گورننس کے لئے پوری طرح شریک ہوتی ہے۔ جس طرح عدالت میں بار اور بنچ دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ سیاست میں حکومت اور اپوزیشن دونوں شریک ہوتے ہیں۔ اگر وزیراعظم گیلانی کو تبدیل کرنے کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے تو اپوزیشن لیڈر چودھری نثار کے لئے بھی یہ مطالبہ آنا چاہئے۔ صدر زرداری نے وزیراعظم گیلانی کو بچانے کا فیصلہ کیا ہے تو نواز شریف، چودھری نثار کو دل سے لگائے ہوئے ہیں۔ جب بھی نواز شریف نے چودھری نثار کا مشورہ مانا۔ انہیں پریشان ہونا پڑا۔ وہ جنرل مشرف کے بعد جنرل ضیاالدین بٹ کو آرمی چیف بنا رہے تھے تو پہلے بنا دیتے۔ وہ مشرف سے سینئر تھے۔ علی قلی خان کے خلاف چودھری نثار نے پروپیگنڈا کروایا تھا۔ جنرل ضیاالدین بٹ کو اس قابل بھی نہ سمجھا۔ معروف کالم نگار فاروق عالم انصاری کے بقول جن تین جرنیلوں نے ڈیفنس کالج کے وار کورس میں تین تین اے حاصل کئے تھے۔ وہ ان میں سے ایک تھے۔ نواز شریف نے جنرل جہانگیر کرامت سے استعفی لے کے جنرل ضیاالدین بٹ کو وقت پر آرمی چیف نہ بنا کے چودھری نثار کے کہنے پر جونیئر جنرل مشرف کو آرمی چیف بنا کر غلطی کی۔ اب وہ جنرل کیانی کے خلاف سیاسی بیان بازی کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں چودھری نثار نے کہا ہے کہ سیلاب زدگان کے لئے آرمی ریلیف فنڈ نہیں ہونا چاہئے۔ جنرل کیانی کا قصور یہ ہے کہ وہ سیاسی جرنیل نہیں اور انہوں نے وار کوس میں تین اے حاصل کئے تھے۔ پہلے مسلم لیگ ق کے چودھری پرویزالہی اپوزیشن لیڈر تھے انہوں نے یہ منصب چھوڑ دیا مگر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے رہے۔ چودھری نثار کو کبھی خیال آیا کہ مسلم لیگ ق بھی اپوزیشن میں ہے۔ کیا وہ پوری طرح اپوزیشن لیڈر ہیں؟ وہ تو یہ نہ کہیں کہ گیلانی صاحب پوری طرح وزیراعظم نہیں ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ گیلانی کی بجائے شاہ محمود قریشی، احمد مختار، ڈاکٹر بابر اعوان اور رحمان ملک کو وزیراعظم بنایا جائے مگر اپوزیشن لیڈر کے لئے تو صرف ایک آدمی پر نظر آ کے ٹھہر جاتی ہے اور وہ جاوید ہاشمی ہیں۔ آخر کیوں نواز شریف نے پہلے چودھری نثار کو وزیراعظم گیلانی کی حکومت کا سینئر وزیر بنوایا اور پھر اپوزیشن لیڈر بنا دیا۔ سینئر وزیر ڈپٹی وزیراعظم ہوتا ہے۔ وزیراعظم بننے کی خواہش اور سازش کبھی اپوزیشن لیڈر کے دل ودماغ سے جاتی نہیں۔ یہ نواز شریف کے علاوہ شہباز شریف کے سوچنے کی بات بھی ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ ساتھ اپوزیشن لیڈر بھی بدلا جانا چاہئے۔ مسلم لیگ ن کے تین چوتھائی ممبران بولتے نہیں مگر وہ اندر سے جاوید ہاشمی کے حق میں ہیں چودھری نثار مڈ ٹرم الیکشن کے حق میں نہیں وہ چاہتا ہے کہ ان ہاﺅس تبدیلی کے لئے پیپلز پارٹی کی بجائے حزب اختلاف کی حکومت بنے۔ اس لحاظ سے بڑی پارٹی تو مسلم لیگ ن ہے اور اس کے منتخب لیڈر چودھری نثار ہیں۔ نواز شریف تو ایم این اے بھی نہیں۔ ان کے لئے ابھی وزیراعظم نواز شریف کے نعرے ہی کافی ہیں۔ مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپوزیشن لیڈر کو بدلے۔ بات تبدیلی کی ہے تو کوئی تبدیلی تو اپوزیشن کی سیاست میں بھی ہو۔
میرا خیال ہے کہ وزیراعظم گیلانی کو بدلنے نہ دیا جائے۔ یہ پیپلز پارٹی اور صدر زرداری کے لئے مفید بھی ہے اور ضروری بھی ہے۔ صدر زرداری کو ہٹانے کی خواہش اور کوشش میں تھکے ہارے لوگ اب آسان شکار کے طور پر وزیراعظم گیلانی کو ہٹانے کے لئے پھر میدان میں آ گئے ہیں۔ میں وزیراعظم گیلانی کی حکومت اور شخصیت کو پسند نہیں کرتا مگر اس موقع پر اس طرح ان کے ہٹائے جانے کے حق میں نہیں۔ اس کارروائی میں مسلم لیگ ن صدر زرداری کے لئے محتاط ہو گئی ہے۔ خواجہ سعد رفیق، صدر زرداری کی تعریف کر رہے تھے۔ جنرل مشرف، عمران خان کی تعریف کر رہے تھے۔ پہلے مسلم لیگ کے ”نونی“ وزیراعظم گیلانی کی تعریف کرتے تھے اور صدر زرداری پر تنقید کرتے تھے۔ یہ سیاست اور اپوزیشن فرینڈلی سے زیادہ سرکاری اپوزیشن ہے۔ براہ راست صدر زرداری کا کچھ بگاڑا نہ جا سکا تو اب بالواسطہ کارروائی کی گئی ہے۔ وزیراعظم گیلانی ہر طرف بھاگتے رہے ہیں۔ وہ یہ تو دیکھیں کہ اب بھی اگر کسی نے ان کا ہاتھ تھاما ہے۔ تو وہ صدر زرداری ہیں۔ ان کے علاوہ وہ بچ نہیں سکتے تھے۔ صدر زرداری جو سیاست کر رہے ہیں کوئی نہیں کر سکتا۔ مولانا فضل الرحمان کو بھی جو آدمی پریشان کر سکتا ہے وہ صدر زرداری ہیں ابھی تو نواز شریف صرف حیران ہوئے ہیں وہ کبھی اپنے بنائے ہوئے وزیراعظم کو رسوا نہیں ہونے دیں گے۔ وزیراعظم کو اپنے صدر کا خیال نہیں تو اپنا ہی خیال کر لیں۔ شیخ ریاض نے بہت گہرا جملہ کہا ہے۔ صدر زرداری کو سیاست کرنے دی جائے۔ گیلانی صاحب صرف حکومت کریں۔ انہیں سیاست کرنا نہیں آیا اور نہ وہ حکومت کرنا جانتے ہیں۔ دونوں کام صدر زرداری کو ہی کرنا پڑ رہے ہیں تو پھر وزیراعظم گیلانی کیا کر رہے ہیں؟ صدر زرداری سے گزارش ہے کہ وہ اپنے وزیراعظم کو بچا لیں۔ ورنہ سیاست دانوں کی نظر ایوان صدر پر ہے۔ سیاست دان رائے ونڈ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے میں نے کہا تھا کہ سیٹ اپ کو اپ سیٹ کرنے والے وہی ہیں جو بار بار کہتے ہیں کہ ہم اس نظام کو ختم نہیں ہونے دیں گے، مسلم لیگ کی غیر واضح پالیسی کے باوجود وزیراعظم گیلانی کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف جمہوریت کو گرنے نہیں دیں گے۔ کیا جمہوریت گیلانی حکومت کا نام ہے اور کیا اس کا تعلق نواز شریف کی پنجاب حکومت سے ہے۔ میرے خیال میں شہباز شریف کی پنجاب حکومت کچھ اور ہے۔ ذوالفقار مرزا صدر زرداری کے دوست ہیں تو ایم کیو ایم گیلانی حکومت کے کیوں خلاف ہے۔ مولانا فضل الرحمان صدر زرداری کی بات ٹال کر بھی گیلانی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں۔ ذہن میں رکھا جائے کہ یہ لوگ گیلانی حکومت کے خلاف نہیں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف ہیں۔ اب پیپلز پارٹی کچھ کر دکھائے۔ پٹرول کی قیمت اور گیس لوڈشیڈنگ ہی کم کر دے، کرپشن روک لے۔!

ای پیپر دی نیشن