پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے 2002ءکے انتخابات میں پوری تیاری کے ساتھ حصہ لیا تھا لیکن دونوں پارٹیاں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکیں ۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے اپنے آبائی حلقوں سے صرف اپنی اپنی سیٹ ہی جیت سکے تھے ۔اس کے بعد ڈاکٹرطاہرالقادری ایم این اے کی نشست استعفیٰ دیکر سیاست کو خیر باد کہتے ہوئے بیرون ملک چلے گئے ۔۸۰۰۲ کے انتخابات کا مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ۔نوازز شریف تو بے نظیر بھٹو کے کہنے پر بائیکاٹ کا خاتمہ کرنے پر آمادہ ہوگئے جبکہ عمران خان کی پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کے فیصلے پر نظر ِ ثانی سے انکار کردیا۔عمران خان اگر ۸۰۰۲ کے انتخابات میں حصہ لیتے تو انیس بیس کے فرق کے ساتھ نتائج 2002ءکے الیکشن سے مختلف نہ ہوتے۔۸۰۰۲ کے انتخابات کے نتیجے میں مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی اور سب سے بڑے صوبے میں مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی ۔مشرف کی آمریت سے نجات کے بعد لوگوں کو جمہوری حکومت اور عوامی حکمرانوں سے بڑی توقعات تھیں۔جن پر پورا اترنے میں حکمران مکمل طور پر ناکام ہوئے۔آج آپ کسی ایک مسئلے کو بڑا قرار نہیں دے سکتے ، جس مسئلے کو دیکھیں وہ بڑا ہی نظر آتا ہے ۔ دہشتگردی بڑا مسئلہ ہے تو توانائی کا بحران اس سے بھی بڑا دکھائی دیتا جس کے باعث لاکھوں صنعتیں بند ہونے سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔کرپشن کو لیں تو اعلیٰ سطح پر ہونے والی کرپشن ہر بیماری کی جڑ نظر آتی ہے ۔حکومت کا مقرر کردہ چیئرمین نیب کہتا ہے کہ پاکستان میں روزانہ 10سے 12ارب روپے کی لوٹ مار ہوتی ہے ۔تما م صوبوں میں امن وامان کی صورت حال پر غور کیا جائے اس سے بڑا کوئی دوسرا مسئلہ دکھائی نہیں دیتا۔ہر ماہ ہزاروں کے حساب سے ڈکیتی ،چوری، اغو ابرائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ جیسی اندوہناک وارداتیں معمول بن چکی ہیں۔مہنگائی کے طوفان کی بات کریں تو باقی سب مسائل اس کے سامنے ہیچ دِکھتے ہیں۔لوگوں نہ صرف سیاستدانوں بلکہ مروجہ جمہوریت سے بھی اعتماد اُٹھ رہا ہے ۔ایسے میں عمران خان عوامی نے عوام کو مسائل اور مشکلات نجات دلانے کی بات کی تو وہ لوگوں کی آنکھ کاتارا بن گئے۔ عمران الیکشن سے بہت عرصہ قبل انتخابی مہم کا آغاز کردیا تو اسے توقع سے کہیں بڑھ کر پزیرائی ملی ۔عمران خان لاکھوں کے کئی جلسے کرچکے ہیں۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جیسی ٹائی ٹینک پارٹیوں کی موجودگی میں لوگ تبدیلی کے لئے عمران خان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ایسے میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی عوام کی دکھتی ہوئی رگ پہ ہاتھ رکھا تو لوگ ان کی طرف بھی اسی جذبے سے متوجہ ہوگئے جس جذبے کے ساتھ وہ عمران خان کی طرف دیکھ رہے تھے۔قادری نے عمران خان سے بھی بڑا جلسہ کردکھایا۔ دونوں آئین اور قانون کی بالادستی اور عوامی مسائل کی بات کرتے ہیں لیکن حل کا طریقہ الگ الگ ہے۔عمران خان سسٹم کے اندر رہتے ہوئے عوامی مسائل و مشکلات دور کرنے کی بات کرتے ہیں جبکہ طاہرالقادری سرے سے سسٹم ہی سے مایوس ہیں اور وہ سسٹم کی اصلاح کرنے کی بات کرتے ہیں اور یہ اصلاحات وہ زور بازو سے کرنے کا اعلان کرچکے ہیں ۔ وہ 14جنوری کو اسلام آباد میں لاکھوں افراد کو لا کر اپنے مطالبات کے مانے جانے تک بٹھائے رکھنے کا عہد دہرائے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی سب سے زیادہ منظم جماعت ایم کیوایم نے طاہرالقادری کا ساتھ دینے کا عزمِ صمیم ظاہر کیا ہے ۔ آج ایم کیو ایم ملک کی چوتھی بڑی سیاسی پارٹی بھی ہے۔عمران خان نے بھی عندیہ دیاہے کہ وہ طاہرالقادری کی تحریک میں ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ قادری کے لانگ مارچ کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی مخالفت کرنے والے بھی اسے ان کا جمہوری حق قرار دیتے ہیں خصوصی طور پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مارچ کو فری ہینڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اچھا ہے کہ دو بڑی پارٹیوں کی طرف سے جمہوری طرز عمل اپنایا گیا ہے ایسی ہی سوچ کا اظہا ر ڈاکٹر قادری کو بھی کرنا چاہئے۔ان کے اسلام آباد میں لاکھوں افراد کو لے جاکر بٹھانے سے جمہوریت ڈی ریل ہو سکتی ہے ۔ آئین میں دھرنوں کے ذریعے حکومت کی تبدیلی اور نگران حکومت کے قیام کی گنجائش نہیں ہے ۔ تبدیلی اور انقلاب انتخابات کے ذریعے ہی لایا جاسکتا ہے ۔ اب تو الیکشن بھی قریب ہیں ۔ عوام دو پارٹیوں کے اقتدار میں رہنے کے لئے کئے گئے میثاق سے نالاں ہیں ۔ دونوں نے عوام کو سخت مایوس کیا ہے۔عوام ایک بار پھر آزمائے ہوﺅں کو آزمانے کے لئے تیار نہیں ۔ جب عمران خان اور قادری عوام کو مشکلات سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو دونوں اکٹھے بھی ہو جائےں اور قابل عمل راستہ بھی اختیار کریں جو جمہوری ، قانونی،آئینی اور اصولی راستہ بھی ہے ۔ ان کے قافلے میں کئی گروپ ،تنظیمیں اور پارٹیاں شامل ہو جائیں گی ۔ تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لگانے والے متحد نہ ہوئے تو عوام کی امیدیں پھر خاک میں مل جائیں گی اور عوام ان کے رحم وکرم پر ایک بار پھر ہوں جنہوں نے ان کی زندگیوں میں زہر گھول رکھاہے ۔
عمران اور قادری مل کر جمہوری طریقے سے تبدیلی لائیں
Jan 05, 2013