اگر یہ استدلال درست ہے کہ (ن لیگ اور پیپلز پارٹی) کے ذریعہ نگران حکومت کا فیصلہ ناقابل قبول ہے تو دو پارٹیوں (متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک منہاج القرآن) کو یہ فیصلہ کرنے کا حق کس نے دیا ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ حق عوام نے دیا ہے جو 14 جنوری کو 4 لاکھ کی تعداد میں اسلام آباد میں جمع ہوں گے تو 4 لاکھ لوگوں کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ 18 کروڑ عوام کا فیصلہ کریں۔ یہ سوالات اپنی جگہ مولانا طاہرالقادری کا دعویٰ ہے کہ وہ الیکشن کا التوا نہیں چاہتے صرف انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں وہ آئین کے آرٹیکل 63-62 پر عملدرآمد کرانا چاہتے ہیں جس کے باعث چور، ڈاکو، جعلساز، جاگیردار ٹیکس چور پارلیمنٹ میں آ جاتے ہیں۔
اگر مولانا طاہرالقادری واقعی ایسا چاہتے ہیں تو خود آئین بلکہ آرٹیکلز 63-62 نے ہی انہیں یہ سہولت اور موقع فراہم کر دیا ہے وہ کیونکہ ایسے عناصر کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے آئے ہیں اس کا مطلب ہے کہ ان کے تمام پیروکار جن میں اب ایم کیو ایم کے وابستگان بھی شامل ہو گئے ہیں سب کے سب دیانتدار، ایماندار، پاکیزہ کردار کے حامل افراد ہیں اور وہ پاکیزگی و شفافیت کے اس اعلیٰ ترین درجہ پر فائز ہیں کہ ”دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں“ لہٰذا ایسے فرشتہ صفات لوگوں کے ساتھ وہ الیکشن میں حصہ لیں اور (ن) لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی، جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام (ف)، جمعیت علماءپاکستان سمیت تمام جماعتوں کے امیدواروں کو آرٹیکلز 63-62 کے تحت کاغذات نامزدگی کے وقت چیلنج کریں ان کے چور، ڈاکو، بددیانت، بے ایمان اور ٹیکس چور ہونے کے ثبوت پیش کریں وہ سب ازخود انتخابی عمل سے آﺅٹ ہو جائیں گے۔ آرٹیکلز 63-62 پر عملدرآمد ہو جائے گا اور انتخابی میدان میں صرف دیانتدار، ایماندار، ٹیکس گزار، غیر جاگیردار اور فرشتہ صفت لوگ رہ جائیں گے جن کا تعلق تحریک منہاج القرآن اور ایم کیو ایم سے ہو گا۔ اس سہولت کے ہوتے ہوئے کیا ضروری ہے کہ لوگوں کو اسلام آباد لے جایا جائے۔ دھرنا دلوایا جائے اور اس مقصد کے لئے ان کے گھروں، زیورات اور موٹر سائیکلوں کو فروخت کروایا جائے۔ مولانا طاہرالقادری ان دنوں آئین کی سربلندی کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ ہر ٹی وی ٹاک میں آئین اٹھا اٹھا کر دکھاتے ہیں مگر انہیں آئین میں 63-62 نظر تو آئے مگر وہ خود اس پر عملدرآمد کے لئے آمادہ نظر نہیں آ رہے۔ ان سے اور ان کے حامیوں سے سوال کیا جائے کہ وہ کون سی انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں تو جواب ملتا ہے ہم نے سابق سیکرٹری الیکشن کمشن کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی ہے جو اصلاحات کا مسودہ تیار کر رہی ہے یہ عجب ستم ظریفی ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ جب آئین میں ترمیم کے ذریعہ پارلیمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ نگران حکومت کا فیصلہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر کریں گے وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ وہ بھی کسی اتفاق رائے پر نہ پہنچ سکی تو حتمی فیصلہ چیف الیکشن کمشنر کریں گے تو اس وقت ایم کیو ایم پارلیمنٹ کا حصہ تھی اور ہے تب اس کی مخالفت کیوں نہ کی۔ ایم کیو ایم کی تاریخ ہے کہ اس نے حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے کر اپنی ہر بات منوائی ہے یہ حربہ تب کیوں استعمال نہ کیا پھر کیوں نہ بہت سے ذہنوں میں یہ شکوک کلبلائیں کہ یہ سب کھڑاک الیکشن کے خلاف کیا جا رہا ہے۔
مولانا طاہرالقادری نے بظاہر لوگوں کو متاثر کرنے والی بات کی ہے کہ کسان کا نمائندہ کسان، مزدور کا نمائندہ مزدور، تاجر کا نمائندہ تاجر پارلیمنٹ میں ہو یہ کوئی نیا تصور نہیں ہے بلکہ 65 سال پہلے یہ تصور علامہ مشرقی نے پیش کیا تھا جو قابل عمل اس لئے نہیں ہے کہ اس طرح پارلیمانی نظام کی بجائے طبقاتی نظام قائم ہو گا کیا دنیا میں کہیں ایسا ہے کیا مولانا طاہرالقادری اور الطاف حسین نے جس ملکہ الزبتھ سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے کیا اس کے زیر حکمرانی برطانیہ اور کینیڈا میں یہ نظام ہے حالانکہ برطانیہ کو تو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے۔