جنرل پرویز مشرف کی بیماری اور فوجی ہسپتال میں داخلے کو سیاستدانوں اور میڈیا کے حلقوں کی اکثریت ڈراما قرار دے رہی ہے۔علالت پر افسوس کرنے والے خواص بھی موجودہیں۔ عوام کی رائے جاننے کا کوئی پیمانہ نہیں۔ ان کی رائے تو انتخابات میں بھی چرا لی جاتی ہے ۔ مشرف کی حالت کو لوگ خود پر محمول کرکے رائے قائم کررہے ہیں۔مشرف ٹراما کو ڈراما کہنے والے مشرف کی نیت پر ہی شبہ نہیں کر رہے،ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو بھی اس ڈرامے کا حصہ سمجھتے ہیں جس کا مقصد مشرف کو ملک سے باہر بھجوانا ہے ۔
مشرف نے فوج کی حمایت کا دعویٰ کیا تو فوجی ترجمان نے اس کی تردید نہیں کی ۔خواجہ آصف نے کہا’’ میں ہوں ناں!‘‘ فوج کی جانب سے تردید کرتا ہوں۔مشرف کا علاج فوجی ڈاکٹر کر رہے ہیں۔ اب وزیر دفاع (برائے عدالتی پیش کار) خواجہ نے کہا ہے حکومت کو پتہ ہے طبیعت کتنی خراب ہے۔ سیاستدانوں نے بہادری دکھائی، عدالت گئے، ہسپتال کا رخ نہیں کیا۔ ۔۔مشرف جس ہسپتال گئے اس کے باوردی ڈاکٹر ،خواجہ کے ماتحت ہیں۔ ان سے ڈراما بازی افشاء کرائیں۔ مشرف آمروں کے نمائندے ہیں انہوں نے ہسپتال پہنچ کر بزدلی دکھائی،سیاستدانوں کے نمائندے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف ہیں زرداری نے پیشی سے بچنے کیلئے پاگل پن کے سرٹیفکیٹ بنوا کر اور میاں صاحب نے بقول احمد رضا قصوری پمز میں داخل ہوکر بہادری کے جوہر دکھائے !۔
مشرف ڈراما رچا کے ہسپتال داخل ہوئے۔ایک ڈیڑھ گھنٹے میں خبر پھیل گئی کہ ان کو علاج کیلئے بیرون ملک بھجوانے پر غور ہورہا ہے اور پھر اس کے بعد مشرف کے مخالفوں کی زبان سے راکٹ باری شروع ہو گئی ۔ کسی نے اپنے کان کو ہاتھ لگا کر نہ دیکھا۔اس دوڑ میں وزیر دفاع بھی شامل ہوگئے شاید وزیراعظم صاحب ان سے بھی آگے ہوں۔ دونوں مل بیٹھے خواجہ نے فرمایا کہ مشرف کو بیرون ملک بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔البتہ عدالت اجازت دے تو اعتراض نہیں۔ ڈاکٹروں نے تو ابھی تک یہ بھی نہیں بتایا کہ مشرف کو عارضہ کیا ہے۔ہر کوئی اپنے اندازے کے گھوڑے دوڑا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان کو دل کی تکلیف نہیں ہوئی۔ بلکہ شدید تنائو کی بیماری’’پرائمری گین‘‘ کا شکار ہوئے ہیں۔ اس بیماری کے کوئی ظاہری شواہد نہیں ہوتے، اسکی کیفیت صرف مریض کو ہی معلوم ہوتی ہے۔
شدید عارضہ قلب کی صورت میں ڈاکٹر مشرف کو بیرون ملک بھجوانے کا مشورہ دے سکتے ہیں اور اس کا فیصلہ پل بھر میں کرکے جہاز میں سوار نہیں کرایاجاسکتا۔ دل کی تکلیف میں تو ڈاکٹر مریض کو کروٹ بدلنے کی اجازت بھی نہیں دیتے کجا جہازکا سفر! اگر مشرف کو دل کی تکلیف ہوئی ہے تو 6جنوری کو عدالت حاضری کوبھول جائیں۔ لوگ ذوالفقارعلی بھٹو کی مثال دیتے ہیں۔ وہ چھلانگ لگا کرپھندے سے نہیں جھول گئے تھے۔ان کو ایک فوجی ڈکٹیٹر نے باندھ کر تختہ دارپر کھڑا کیا ۔ ضیاء الحق نے اپنی ذاتی دشمنی کے باعث بھٹو صاحب کیلئے کوئی آپشن ہی نہیں چھوڑا تھا۔ آصف علی زرداری کا قول ہے کہ 302 کا کیس درخت پر ڈال دیاجائے تو وہ بھی سوکھ جاتا ہے۔ غداری کیس اس سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ آرمی چیف کرپٹ، بد کردار، مفاد پرست اور کچھ بھی ہوسکتا ہے ملک دشمن نہیں۔ اس پر غداری کا الزام ہوتو مضبوط سے مضبوط اعصاب بھی جواب دے جاتے ہیں۔ مشرف نے اگر ڈرامہ کیا ہے تو یہ واقعی بزدلی ہے۔اگر وہ بیمار ہیں اور ڈاکٹر ان کا علاج بیرون ملک تجویز کرتے ہیں ،حکومت تو پہلے کی آمادہ ہے ۔ عدالت بھی اجازت نہ دے کر مرنے کیلئے نہیں چھوڑے گی۔ فرد جرم لگ جاتی تو کیس آگے چلتا۔ مشرف کو سپریم کورٹ آئین توڑنے کا مجرم قرار دے چکی ہے۔اب فیصل عرب کی سربراہی میں خصوصی عدالت کی کیا ذمہ داری رہ جاتی ہے ؟
عوام کی اکثریت مشرف کے دور کے آخر تک ان سے متنفر ہوچکی تھی۔ 2008 کے انتخابات میں ان کی مقبوضہ پارٹی ق لیگ شکست سے دوچار ہوگئی۔ مشرف کا سایہ بھی ان کا ساتھ چھوڑتا نظر آیا۔ اب مشرف کیلئے عوام اور خواص میں پھر ہمدردی کی لہر اٹھ رہی ہے ۔ اس کی ذمہ دار سیاسی حکمرانوں کی کرپشن، لوٹ مار، دوست نوازی اور اقربا پروری پر مشتمل پالیسیاں ہیں جن سے عوام کا عرصہ حیات تنگ ہوا۔ شیخ رشید، شجاعت حسین اور الطاف حسین کھل کر مشرف کی حمایت کر رہے ہیں۔ مہنگائی سے بیزار ایک طبقہ مشرف کے دور کو آج کے مقابلے میں کہیں بہتر قرار دے رہا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ مشرف کے آئین شکنی کے اقدام سے صرف نظر کرلیاجائے۔ان کا ٹرائل ہر صورت ہوناچاہئے اس کے ساتھ مشرف کا ماورائے آئین اقدامات میں ساتھ دینے والوں کا بھی اور ان کا بھی جو اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر آئین اور قانون کو توڑنے کا باعث بنے۔ کم از کم ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنیوالوں کو آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کی چھلنی سے ضرور گزارا جائے۔ بڑے آئین شکن سے چھوٹے تک کوئی بھی قابل معافی نہ ہو۔
وقت نیوز میں ساتھی تجزیہ نگاربریگیڈئر فاروق حمید کا دو روز قبل دوران دڑائیونگ موبائل سننے پر چالان ہوا تو انہوں نے اپنا تعارف نہیںکرایا ۔پانچ سوروپے جمع کرا دیئے۔ قانون کی بالادستی کی بات قانون پر عمل کرنے والے ایسے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ ہم جسے پریس کارڈ دکھا کر رعایت لینے والے ،این آر او کے تحت سیاست کرنے اور ڈیل کرکے جدہ جانے والے نہیں۔
بھٹو صاحب نے پھانسی دینے والے ججوں کو متعصب قرار دیا۔ وہ پھر بھی کیس چلانے پر مُصر رہے تو ان ججوں اور ان پر دبائو ڈالنے والے جرنیلوں کو دنیا کیا کیا خطاب دیتی ہے۔اُس فیصلے کی کبھی کسی عدالت میں مثال نہیں دی گئی بلکہ اسے عدالتی مرڈر کہا جاتا ہے ۔مشرف کو آج لٹکانے کی کوشش اور خواہش کرنے والے کرنے والے کیا تاریخ میںسرخرو ہوجائیں گے؟آئین شکنوں اور تھانوں کی مٹی پلید کرنیوالوں کا ایسے لوگ ٹرائل کریں جن کا اپنا کردار بے داغ ہو۔وہ بندہ ڈھوندیں جو پہلا پتھر مارے۔
جسٹس افتخار محمد چودھری کو آمریت نے دبانے کی کوشش کی تو ان کا حلقہ اثر قانونی حلقے میدان میں آگئے۔ جسٹس صاحب کا قریبی حلقہ جج تھے۔ وہ ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ جن لوگوں نے ان کی جگہ لی وہ بھی جج ہی تھے۔پھر یہ بھی دیکھا کہ جسٹس صاحب کے قریبی لوگ بھی ان سے دور ہوگئے۔ اگر جج صاحب پر پھر کوئی ستم ٹوٹتا ہے تو دوریاں پھر قربت میں بدل سکتی ہیں۔مشرف کا حلقہ اثر فوج ہے اور ان میں قریبی حلقہ کمانڈوز ہیں خصوصی طورپر ریٹائرڈ کمانڈوز جن پر فوجی ڈسپلن کا اطلاق نہیں ہوتا۔مشرف کے ساتھیوں کی وکلاء ہر پیشی پر درگت بناتے رہے۔آخری پیشی پر مشرف کے حامی کمانڈوز نے وکلاء کے ساتھ وہی کیا جوو کلا اپنے ہتھے چڑھنے والے کسی جج یا تھانیدار کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس کے بعد وکلاکی مستیاں بند ہوگئیں۔ اگر انصاف کو’’ مسلط‘‘ کرنے کی کوشش کی گئی تو کمانڈوز خطر ناک ثابت ہوسکتے ہیں۔