کہتے ہیں کہ ’’سیاست میں مستقل دوستی یا دُشمنی نہیں ہوتی‘‘۔ مولاا فضل اُلرحمن کی جمعیت عُلماء اسلام اور عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف اقتصادی راہداری کے معاملے میں مشترکہ مؤقف اپنانے پر متفق ہو گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر کی مولانا فضل اُلرحمن سے ملاقات میں سب کچھ طے ہوگیا ہے۔
مولانا فضل اُلرحمن کا کمال؟
شاعر نے کہا تھا کہ …؎
’’جو لوگ کچھ نہیں کرتے‘ کمال کرتے ہیں‘‘
لیکن مولانا فضل اُلرحمن بہت ہی باکمال شخصیت ہیں۔ ہر دَور میں بہت کچھ کرتے ہیں اور ہمیشہ کرتے رہتے ہیں ۔ دونوں جماعتوں میں ابتدا سے ہی دُوریاں تھیں، اب قربتوں کا آغاز ہُوا ہے تو یقیناً دونوں جماعتوں کو اِس کا پھل ملے گا۔ جناب اسد قیصر نے مولانا صاحب سے کہا کہ ’’اقتصادی راہداری کے منصوبے پر ہماری جماعت کو تحفظات ہیں۔ آپ ہماری سرپرستی فرمائیں‘‘۔ مولانا صاحب راضی ہو گئے۔ انہوں نے ماضی کے حوالے سے کوئی گِلہ نہیں کِیا اور نہ ہی طعنہ دِیا اورفوراً تحریک انصاف کی ’’سرپرستی کا منصب‘‘ قبول کر لِیا۔ حضرتِ داغ ؔدہلوی کا مزاج مختلف تھا جب اُنہوں نے بڑی مُدّت کے بعد مِلنے والے ایک دوست سے کہا کہ …؎
’’مُدت کے بعد ہم سے مِلے ہو‘ کہو تو کُچھ
پیدا کِیا ہے اتنے دِنوں میں کمال کیا؟‘‘
مولانا فضل اُلرحمن پختون ہیں اور عمران خان بھی لیکن عمران خان پنجابی پختون ہیں اور 1947ء میں مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے پاکستانیت اختیار کرنے والی اپنی والدہ صا حبہ کے حوالے سے خود کو ’’آدھا مہاجر‘‘ کہہ چکے ہیں اور الطاف بھائی عمران خان کو پُورا مہاجر تسلِیم کر چُکے ہیں۔ مولانا فضل اُلرحمن وسیع اُلقلب ہیں۔ دِلّی کے مہاجر صدر جنرل پرویز مشرف سے اُن کی گاڑھی چھنتی تھی (اور پتلی بھی) موصوف لوکل/ مہاجر‘ تفریق کو اہمیت نہیں دیتے۔ وہ کہا کرتے تھے / ہیں کہ ’’عمران خان یہودیوں کے ایجنٹ ہیں‘‘ اور جواب میں عمران خان کا یہ مؤقف تھا/ ہے کہ ’’مولانا فضل اُلرحمن کے ہوتے ہُوئے پاکستان میں یہودیوں کو کسی اور ایجنٹ کی ضرورت نہیں؟‘‘۔ عمران خان آل پارٹیز کانفرنس میں مولانا فضل اُلرحمن کی اقتداء میں نماز پڑھی تو مَیں بہت خوش ہُوا تھا لیکن جب انہوں نے ریحام خان سے اپنا نکاح غیر پختون مولانا مفتی محمد سعید سے پڑھوایا تو مولانا فضل اُلرحمن کے عقیدت مندنمازی بہت مایوس ہُوئے۔ ریحام خان سے عمران خان کا نکاح اگر مولانا فضل اُلرحمن پڑھاتے تو نکاح میں برکت پڑتی۔ مولانا صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہیں جب اُن کے کسی اتحادی حکمران سے ’’تحفظات‘‘ ہُوں تو وہ اُنہیں اپنی فراست سے دُور کرا لیتے ہیں۔ سڑکوں پر آنے اور دھرنوں کی سیاست سے اپنے عقیدت مندوںکو امتحان میں نہیں ڈالتے۔
’’سیاسی موسِیقاروں کا نیا گھرانہ!‘‘
کینیڈین ’’شیخ اُلاِسلام‘‘ علاّمہ طاہر اُلقادری نے لاہور میں قومی طلبہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے طلبہ سے دو اہم اعلانات کئے۔ پہلا یہ کہ ’’ہم عِلم کے ذریعے لوگوں میں شعور اُجاگر کریں گے‘‘۔ اور دوسرا یہ کہ ’’اگر سانحہ ماڈل ٹائون کے 14 افراد کے قتل میں اِنصاف نہیں مِلا تو ہم رائے وِنڈ (شریف برادران کی ذاتی رہائش گاہ) کی اِینٹ سے اِینٹ بجا دیں گے‘‘۔ گذشتہ سال 6 جون کو سابق صدر جنابِ زرداری نے اسلام آباد میں (نہ جانے کیوں؟) جرنیلوں کی اِینٹ سے اِینٹ بجانے کا اعلان کِیا تھا۔ اُس کے بعد موصوف (شاید اِینٹیں خریدنے کے لئے ) دُبئی چلے گئے۔ طاہر اُلقادری بھی اِینٹ سے اِینٹ بجانے کا اعلان کر کے کینیڈا چلے گئے ہیں۔ دونوں قائدِین اِینٹ سے اِینٹ بجانے کے فن کا مظاہرہ کب کریں گے؟۔ اِس کا اُن کے نائبین کو بھی عِلم نہیں۔ بعض سیانے کہتے ہیں کہ ’’گانا اور رونا کِسے نہیں آتا‘‘ لیکن اصل فن تو ’’گانا بجانا‘‘ ہے۔ حضرت امیر مینائی نے گانے بجانے کو ’’عِلم‘‘ قرار دیتے ہُوئے کہا تھا کہ … ؎
’’آگیا گانے بجانے کی طرف ایسا دِل
کہ ملازم ہُوئے اِس عِلم کے اکثر کامِل‘‘
علاّمہ طاہر اُلقادری بھی اپنے تیئں ’’کامل‘‘ کہلاتے ہیں۔ اگر جناب امیر مینائی کے پہلے مصرعے میں تھوڑا سا تصرّف کر لِیا جائے تو یُوں ہو گا…؎
’’آگیا اِینٹ سے اِینٹ بجانے کی طرف ایسا دِل
کہ ملازم ہُوئے اِس عِلم کے ، اکثر کامِل‘‘
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ طاہر اُلقادری کسی کے ملازم نہیں‘ 90 ملکوں میں منہاج اُلقرآن کے نام سے اُن کا ’’ کارِخیر‘‘ ہے جِس کے سینکڑوں ہزاروں لوگ ملازم ہیں۔ اُستاد ابراہیم ذوقؔ شاعر تھے اور خود کو کئی فنون میں طاق بھی سمجھتے تھے لیکن وہ قِسمت کے ہاتھوں مار کھا گئے۔ کہتے ہیں …؎
’’ قِسمت سے مَیں لاچار ہُوں اے ذوقؔ وگرنہ
سب فن میں مَیں ہُوں طاق‘ مجھے کیا نہیں آتا‘‘
جرمن معیشت دان اور سوشل فلسفی "karl Marx" نے صِرف ایک کتاب "Das Kapital" لِکھی۔ اُسی ایک کتاب سے کئی مُلکوں میں عوام کے حق میں انقلاب آیا۔ علاّمہ القادری 550 کتابوں کے مصنف ہیں لیکن پاکستان میں انقلاب نہیں لا سکے۔ انقلاب لانے کے لئے سال میں ایک بار پاکستان آتے ہیں اور ہر بار ’’انقلاب‘‘ انہیں غُچّا دے کر کسی ایسے ملک میں چلا جاتا ہے جہاں انقلاب کی ضرورت ہی نہیں۔’’اِینٹ سے اِینٹ بجانا‘‘ ایک فن ہے۔ ممکن ہے انہوں نے یہ فن سِیکھ رکھا ہو، لیکن جرنیلوں کی ’’اِینٹ سے اِینٹ بجانا‘‘ اِتنا آسان نہیں ہے۔ جب جنابِ زرداری نے یہ اعلان کِیا تو ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے انہیں یہ مُفت مشورہ بھجوایا تھا کہ …؎
’’اِینٹ سے اِینٹ بجائو‘ تمہیں ڈر کِس کا ہے؟
پہلے معلوم تو کر لو‘ کہ یہ گھر کِس کا ہے؟‘‘
علاّمہ طاہر اُلقادری کا شریف برادران کے بارے میں ’’جھاکا لتّھا ہُوا ہے‘‘ لیکن رائے ونڈ کی اِینٹ سے اِینٹ بجانا۔ ’’کلے بندے دا کم‘‘ نہیں ہے۔ طاہر اُلقادری صاحب کا ’’عِلم کے ذریعے لوگوں کا شعور اُجاگر کرنا‘‘ اچھا جذبہ ہے لیکن ’’رائے ونڈ کی اِینٹ سے اِینٹ بجانے کے لئے انہیں اپنے عقیدت مندوں کو اِس فن میں طاق‘‘ کرنا ہوگا۔ وگرنہ وہ سب ’’عطائی‘‘ کہلائیں گے اور ہاں! علامہ صاحب! پاکستان میں انقلاب لانے کے لئے آپ کو یہاں ٹِک کر بیٹھنا ہو گا اور 90 ملکوں میں اپنے چُورن کی فروخت بند کرنا ہو گی!۔ حضرتِ داغؔ دہلوی عالم‘ فاضل شاعر تھے۔ اُن کے ’’کعبۂ دِل‘‘ پر لشکرِ غم نے حملہ کِیا تو کہا کہ …؎
’’لشکرِ غم نے کِیا‘ کعبۂ دِل کو برباد
اِینٹ سے اِینٹ بجا دی ہے‘ خُدا کے گھر کی‘‘
پنجاب کے صوفی شاعر بابا بُلّھے شاہ بھی ’’ القادری‘‘ تھے ۔ مُرشد کو منانے کے لئے گانا اور رقص اُن کاشوق تھا لیکن اُن کے بارے میں کوئی حوالہ نہیں مِلتا کہ وہ ’’اِینٹ سے اِینٹ بجانے کا بھی فن‘‘ جانتے تھے۔ علاّمہ طاہر اُلقادری شاعر نہیں ہیں البتہ اعضاء کی شاعری کرتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر ہاتھ نچا نچا کر مخالفین کوکوسنے دیتے ہیں۔ ’’اِینٹ سے اِینٹ بجانے کا فن‘‘ اُنہوں نے کب اور کِس سے سِیکھا؟ بابا ٹلّ کو بھی عِلم نہیں۔ سینٹ‘ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ارکان کو اپنی مرضی سے ڈیسک بجانے کی اجازت ہے، کوئی دوسرا ساز بجانے / باہر سے لانے کی اجازت نہیں ہے۔ ماہرین موسیقی اِینٹ سے اِینٹ بجانے کے فن کو تسلیم نہیں کرتے۔ فی الحال جناب زرداری اور طاہر اُلقادری میدان میں اُترے ہیں۔ کیا ’’سیاسی موسیقاروں کا کوئی نیا گھرانہ‘‘ بھی وجود میں آنے والا ہے؟۔