ایران کے کئی شہروں میں سال نو کے آغاز کے ساتھ ہی جو ہنگامے پھوٹ پڑے تھے ان کی سوشل میڈیا کے مختلف Appsکے ذریعے تشہیر ہوئی۔ چھوٹے سے چھوٹے قصبات میں مٹھی بھر افراد کسی مقام پر رونما ہوتے۔ ایرانی حکومت کو اشتعال انگیز نعروں سے للکارتے۔ ان کی بدولت گماں یہ پھیلانے کی کوشش ہوئی کہ ایران میں ”عرب بہار“ جیسی کوئی تحریک پھوٹ پڑی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلائے ان ویڈیوز کے بارے میں اطلاع یہ بھی دی جاتی کہ انہیں مذکورہ شہروں یا قصبات میں موجود ”مجاہدینِ خلق“ کے کارکنوں نے تیار کیا ہے۔
ایک عظیم تہذیب کا وارث ایران ہمارا ہمسایہ ملک بھی ہے۔ ہمارے صحافیوں کو وہاں کی سماجی اور سیاسی تحریکوں پر گہری نگاہ رکھنا چاہیے تھی۔ تحقیق کی مگر ہمیں عادت نہیں۔ فارسی زبان سے قطعاََ ناآشنا ہوچکے ہیں۔ حالانکہ اس زبان کو جانے بغیر تخلیقی تو کیا بہتر اور مناسب اُردو بھی نہیں لکھی جاسکتی۔ نہ ہی اس کا ادب کماحقہ سمجھا جاسکتا ہے۔ اتنے برس گزرجانے کے باوجود ہمارے ہاں کوئی ایک بھی ایسا لکھاری یا تجزیہ کار نمودار نہیں ہوا ہے جس نے ایک Committed Specialistکی طرح اپنا فوکس ایران پر رکھا ہو اور ہم بوقتِ ضرورت اس سے رجوع کرکے وہاں کے اہم معاملات کو سمجھ پائیں۔ ایران کے بارے میں ہمارے تمام تر ”علم“ کا انحصار غیر ملکی اخبارات وجرائد میں چھپی تحریروں پر ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ عالمی میڈیا ایران کو عموماََ امریکی یا یورپی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
1978کے وسط میں جب ایرانی انقلاب کی تحریک شروع ہوئی تو میں نے اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرنے کی کوشش کی۔ اسلام آباد میں مقیم چند طالبِ علموں سے بھی اس ضمن میں رابطہ رہا۔ میری معلومات کا تمام تر انحصار بنیادی طورپر مگر امریکی اور یورپی اخبارات میں چھپی تحریروں پر رہا۔ اس سب کی بدولت طے یہ کیا کہ ایران میں شاید کوئی ”جمہوری“ تحریک پھوٹ پڑی ہے۔ مقصد اس کا شاہ ایران کی مسلط کردہ آمریت سے نجات پاکر مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کا قیام ہے۔ ان جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد کی بدولت بالآخر ایران میں کوئی پارلیمان قائم ہوگی۔ آزادانہ انتخابات ہوں گے جن کی بدولت کوئی جماعت اکثریت کی بدولت اپنی حکومت قائم کرلے گی۔
مجھ ایسے صحافی ہرگز بے خبر رہے کہ ایران کے مذہبی رہ نما کم از کم 1905سے بہت منظم رہے ہیں۔ ”بازار“ یعنی کاروباری طبقات انہیں باقاعدگی سے مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔ قم کی صورت میں ایک بہت ہی طاقت ور مرکز بھی موجود ہے جہاں سے آئے پیغامات کو مساجد کے ذریعے ایران بھر میں پھیلانے کا ایک بہت ہی مو¿ثر کمونی کیشن سسٹم موجود ہے۔ ہم ایران میں چلی تحریک کو محض شہری متوسط طبقے سے اُٹھے دانشوروں کے خیالات کا ترجمان سمجھتے رہے۔
”مجاہدینِ خلق“ کا اس ضمن میں بہت ذکر رہا۔ اسلام آباد میں مقیم جو طالب علم تھے وہ بھی ان سے کسی نہ کسی صورت متاثر یا متعلق دکھائی دیئے۔ یہ حقیقت مجھے بہت عرصے کے بعد سمجھ میں آئی کہ جن طالب علموں سے میرا رابطہ تھا ان کی بے پناہ اکثریت ”کرد نژاد“ تھی۔ وہ Mainstream”پرشین ذہن“کی نمائندگی نہیں کرتے تھے۔
ٹھوس ہوم ورک کی عدم موجودگی کے سبب فروری 1979میں امام خمینی کی تہران آمد اور ان کے والہانہ استقبال کے بارے میں مجھ ایسے لوگ بہت حیران ہوئے۔ بعدازاں شاہ معزول ہوکر جلاوطن ہوگیا۔ جس کے بعد بتدریج ایران میں ایک ایسا سیاسی نظام قائم ہوگیا جس کو مجھ ایسے ”جمہوریت پسند“ محض ”ملاﺅں کی آمریت“ تصور کرتے ہیں۔ کئی برسوں تک میں ”مجاہدینِ خلق“ کو اس سوچ کی وجہ سے کٹر جمہوریت پسند تصور کرتا رہا۔ یہ حقیقت دریافت کرنے میں بہت دیر لگی کہ ”مجاہدینِ خلق“ اپنے تئیں ایک Cultہے۔اس سے متعلق لوگوں کی بھی ایک مخصوص جنونیت ہے۔ رجوی ان کا قائد تھا۔ ایران سے فرار ہوکر صدام حسین کے عراق چلا گیا تھا۔ وہاں ”مجاہدینِ خلق“ کے کیمپ قائم ہوئے۔ 1994میں ایران میں دس دن گزارنے کا موقعہ ملا تو سمجھ میں آیا کہ ایرانی عوام کی اکثریت ”مجاہدینِ خلق“ کو غدار شمار کرتی ہے۔ عراق-ایران جنگ کے 8برسوں کے دوران ان کا صدام حسین سے تعلق ایرانی حکومت کے انتہائی مخالفین بھی بھولنے کو تیار نہیں تھے۔
”مجاہدینِ خلق“ کو امریکہ وغیرہ نے ”دہشت گرد“ تنظیم قرار دیا تھا۔ صدام حسین کے بعد ان کی تنظیم تتر بتر ہوگئی۔ سال نو کے آغاز کے ساتھ سوشل میڈیا پر ”مجاہدینِ خلق“ کے حوالے سے پھیلی مظاہرین کی تصاویر دیکھیں تو سمجھ آگئی کہ ”یہ کمپنی“ چلنے والی نہیں۔ اس کے کچھ لوگوں کو لیکن ٹرمپ انتظامیہ سے کچھ سرپرست ضرور مل گئے ہیں۔ اسی لئے سال نو کے آغاز کے ساتھ ہی ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف ہذیان بھرا ٹویٹر پیغام لکھنے کے بعد ایران میں ”جاری جمہوری تحریک“ کا بھی پُرجوش انداز میں خیرمقدم کیا۔ اقوام متحدہ میں اس کی لگائی امریکہ کی مستقل مندوب -نکی-اب ایران میں جاری اس تحریک کی حمایت میں ”عالمی ضمیر“ کو متحرک کرنا چاہ رہی ہے۔
ایران میں اس وقت جو ہورہا ہے اسے بھرپور انداز میں سمجھے بغیر میری جانب سے کسی رائے کا اظہار قطعاََ جہالت ہوگی۔ ایک بات مگر بہت اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی حکومت کے لئے ٹرمپ کی جانب سے بیک وقت ہمارے علاوہ ایران اور شمالی کوریا سے پنگالینا کافی اطمینان کا سبب ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ کا امریکہ بھارت کو اس خطے کا علاقائی تھانے دار بنانا چاہتا ہے۔ اس کی یہ خواہش بھی ہے کہ افغانستان میں اس کااثرورسوخ مزید گہرا اور توانا ہوجائے۔امریکہ کی اس خواہش کو عملی صورت دینے کے لئے بھارت ایران کی چاہ بہار میں واقع بندرگاہ پر انحصار کئے ہوئے ہے۔بہت عجلت میں وہ بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ اس امرکو یقینی بنانا چاہ رہا ہے کہ سمندرسے کٹ کر Land Lockedہوا افغانستان اپنی روزمرہّ کی ضروریات کا سامان پاکستان کے بجائے چاہ بہار سے منگوائے۔ پاک-افغان تجارت جو پاکستان کے لئے ہر سال تقریباََ4ارب ڈالر کمارہی تھی اب سکڑکر ایک ارب سے بھی کم ہوچکی ہے۔ ٹرمپ اور اس کے حواریوں نے ایران کے خلاف مخاصمت میں شدت اختیارکی تو ایران،بھارت کو افغانستان کا ”ماما“ بنانے میں مدد دینے کے بارے میں سوبار سوچے گا۔
نائن الیون کے بعد ایران نے بہت مہارت سے امریکہ کے لئے افغانستان اور عراق میں آسانیوں کا بندوبست کیا تھا۔ اوبامہ کی طے شدہ نیوکلیئر ڈیل پر عمل جاری رہتا تو شاید امریکہ اپنی افواج کے لئے پاکستان سے جانے والے راستوں پر پابندی کے بعد بھارت کی مدد سے چاہ بہار کی بندرگاہ بھی استعمال کرسکتا تھا۔ ٹرمپ کے مخاصمانہ رویے کی وجہ سے اب یہ ممکن نہیں رہے گا اور امریکی جرنیلوں کو پاکستان کے خلاف Punitive Strikesکرنے سے قبل اس پہلو پر بھی بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔