2017ء کے خاتمہ اور2018ء کی آمد پر قوم ایک تاریخی دورائے پر کھڑی ہے۔ سال ماضی کے بیشتر حکمران جماعت مختلف مقدمات میں الجھے رہے جس کے نتیجہ میں میاں محمد نواز شریف نا اہل قرار دیئے گئے۔ پارلیمنٹ نے شاہد خاقان عباسی کو وفاقی اتحادی جماعت کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سابق وزیراعظم کے دونوں بیٹے حسین نواز اور حسن نواز کے علاوہ ان کی صاحبزادی مریم نواز کو مختلف ریفرنسز کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت ایک مخصوص مدت کے اندر احتساب قانون کے تحت ضروری قانونی کارروائی کے لئے عدالتوں کے سپرد کر دیا گیا۔ عدلیہ کے فیصلوں پر عوامی احتجاج کا حق استعمال کرتے ہوئے جناب میاں محمد نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور تک جی ٹی روڈ پر ’’ہمیں کیوں نکالا‘‘ احتجاج کا آغازکیا۔ جس نے مسلم لیگ نون کے مختلف جلسوں جلوسوں ریلیوں کے دوران اپنے اور حکومتی وزراء کے خطابات کو اس نعرہ کو ’’ہمیں کیوں نکالا‘‘ ایک قومی احتجاجی نعرہ کی صورت دینے کی کوشش کی۔ اس میں بعض وفاقی وزراء کے عدلیہ کے خلاف تند و تیز نعروں نے اگرچہ سیاست میں گرما گرمی پیدا کرتے ہوئے جلسوں اور ریلیوں کی رونق میں اضافہ تو کیا لیکن عوام کی واضح اکثریت نے عدلیہ کیخلاف جو زبان اختیار کی گئی اسے پسند نہ کیا۔ نہ جانے کون سے رفقاء کے مشورہ پر سابق وزیراعظم نے نہ صرف تحریک عدل شروع کرنے کا اعلان کر دیا بلکہ عدلیہ کے خلاف احتجاجی الفاظ میں افواج پاکستان نے جو سیاسی احتجاجی معاملات میں ملوث ہونے سے قطعی پرہیز کے اصول پر کاربند ہیں ان کو بھی نہیں بخشا گیا۔جب داخلی سیاست اور قومی سلامتی اس نازک دور سے گزر رہی تھی کہ اس مرحلہ پر یروشلم کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان امریکی صدر نے واشنگٹن سے کرتے ہوئے اسلامی دنیا میں ایک زلزلہ پیدا کر دیا۔ اس وقت سے لیکر عرب اور عجم دنیا کا ردعمل ترکی میں ہونے والے او آئی سی اجلاس کے اعلانیہ سے ظاہر ہے۔
اس تفصیلی پس منظر کا بیان کرنا اس لئے لازم ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ سفارتی آداب سے ہٹ کر جارحانہ اپنی نوعیت کی پاکستان کے بارے میں واشنگٹن سے جاری کردہ گزشتہ نصف صدی میں پہلی زہر آلود وارننگ کا جائزہ لیا جائے۔ میرے پاس فی الحال امریکی صدر کے بیان کا فل TEXTموجود نہیں ہے لیکن جو کچھ بھی مختلف ذرائع ابلاغ نے پرنٹ یا ٹیلی ویژن چینل پر حوالہ دیا ہے اس کا ذکر اپنی 70 سالہ صحافتی زندگی میں خاکسار نے نہ کہیں پڑھی اور نہ ہی کہیں سنی۔ امریکہ کا میڈیا بھی اپنے صدرکے موڈ کو ہم سے بہتر سمجھتے اور جانتے ہوئے وہ جلد بازی میں ردعمل سے پرہیز اختیار کرنا عقل و دانش کا تقاضا خیال کرتے ہیں لیکن پاکستان کیلئے صدر ٹرمپ کا تازہ ترین بیان ہماری قومی سلامتی اور خود مختاری سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے امریکی صدر کے بیان کے فوری بعد قومی سلامتی کمیٹی کا ایمرجنسی اجلاس اسلام آباد میں طلب کر لیا ہے جس میں وزیر خارجہ خواجہ آصف‘ وزیر دفاع خرم دستگیر‘ وزیر داخلہ احسن اقبال کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات‘ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ‘ قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر اعزاز چودھری سمیت اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے شرکت کی۔ اس موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کے غیر ضروری بیانات کے باوجود پاکستان عجلت پر مبنی ردعمل کا اظہار نہیں کرے گا ورنہ صرف اپنے لوگوں کیلئے بلکہ اس خطہ اور امن عالم کیلئے افغانوں کی زیرسرکردگی امن و مفاہمت کے عمل میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔ پاکستانی قوم کو اپنی عزت اور وقار بہت عزیز ہے اور وہ اپنے وطن کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔ سعودی عرب سے واپسی پر سابق وزیراعظم جناب نواز شریف آج پھر اسلام آباد میں احتساب عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ آج کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ سعودی حکومت سے شریف برادران کے تازہ ترین مذاکرات کا کیا کوئی مثبت نتیجہ نکلا ہے یا ہم ابھی تک ماضی کے خوابوں میں گم ہیں۔ واشنگٹن سے تارہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو اپنی فوجی امداد فوری طور پر بند کر دی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آنے والے چند دنوں میں مزید سخت اقدامات کا اعلان متوقع ہے۔ کبوتر کے آنکھیں بند کر لینے سے خطرات ٹل نہیں جاتے۔ جہاں تک افواج پاکستان کے اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کا تعلق ہے افواج پاکستان بار بار قوم کو یقین دلا چکی ہیں کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ لیکن اس کیلئے عوام کی بھرپور سپورٹ ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔ آج جو الزامات امریکی صدر نے پاکستانی حکومت پر لگائے ہیں ان کو رد کرتے ہوئے خاک میں ملانے کیلئے وزیراعظم اور کابینہ نو ایک ٹھوس اور مربوط دفاع NARRATIVE کی ضرورت ہے۔ افواج پاکستان نے جن عظیم الشان قربانیوں کے ذریعے افغان سرحد کے ساتھ دہشت گردوں کے قبضہ شدہ علاقہ جات کو ریاست سوات اور دیگر ایجنسیوں میں پاکستان کی حکمرانی اور قانون اور آئین کی بالادستی میں دوبارہ پاکستان کی ریاست کا حصہ بنایا۔ خیبر ایجنسی کوہاٹ ٹل اور پارا چنار کے علاقوں کو آزاد کرایا اور آخر میں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جن علاقوں کو برطانیہ کے دور حکومت میں انگریز فوجیں بھی آزاد نہ کروا سکیں وہاں پاکستان کی حکومت کی اتھارٹی بحال کرتے ہوئے شجاعت اور قربانی کی وہ داستانیں رقم کیں جن کی مثالیں جدید یا قدیم زمانے میں دنیا پیش نہیں کر سکی۔ کیا امریکہ اپنی جنگ آزادی یا مغرب کی کسی اور گوریلا وارکی مثال موجودہ امریکن اتحادی اپنی انٹرنیشنل وار آف ٹیرر میں پیش کر سکتے ہیں جہاں کسی ایک اتحادی قوم یا فوج نے 70ہزار جانوں کی قربانی دی ہو اور 8 سے 10ہزار فوجی جوانوں نے سپاہی سے لیکر جرنیل تک جام شہادت نوش کیا ہو پیش کر سکتے ہیں۔ یہ اعزاز صرف پاکستان کی بہادر افواج اور بہادر قوم کو حاصل ہے۔ لیکن اس حقیقت کا کوئی ٹھوس NARRATIVE ہم دنیا کو پیش نہیں کر سکے کہ کتنے ملین افغان مہاجرین گزشتہ 70سال سے ہماری اکانومی کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ سوویت یونین کے افغانستان میں حملہ آور ہونے پر فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت میں پاکستان نے کتنی جانی مالی اقتصادی معاشی قربانیاں دی ہیں پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں۔