چینی جنر ل کی کتاب آرٹ آف وار اور ٹرمپ

پانچ سو برس قبل مسیح میں چین پر ہولو بادشاہ کی حکومت تھی۔ اُس کا فوجی جنرل سن زو تھا۔ وہ ملٹری فلاسفر اور فوجی حکمت عملی کا ماہر تھا۔ اُس نے دنیا کو فن حرب پر پہلی بھرپور کتاب ’’دی آرٹ آف وار‘‘ دی۔ یہ کتاب فوجی ماہرین کے درمیان بائبل کی حیثیت رکھتی ہے۔ مغرب والے سن زو کی کتاب دی آرٹ آف وار سے اتنے متاثر ہیں کہ وہ اُسے ’’استاد سن زو‘‘ کہتے ہیں۔ سن زو کو گزرے ڈھائی ہزار برس بیت چکے ہیں لیکن وہ اپنی کتاب کی وجہ سے اب بھی زندہ ہے۔ دی آرٹ آف وار میں جہاں فوجی حکمت عملی کے دائو پیچ بتائے گئے ہیں وہیں حکمرانوں کے لئے مجرب نسخے بھی تحریر ہیں جن پر غور کرکے ڈپلومیسی کے ذریعے جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ اِن دنوں امریکی صدر ٹرمپ کی پاکستان کو جنگی دھمکیوں کا خوب چرچا ہے۔ اس پس منظر میں اگر دی آرٹ آف وار کا مطالعہ کیا جائے تو اس کتاب میں کچھ سبق پاکستانی حکومت کے لئے ملتے ہیں جبکہ کچھ سبق ٹرمپ کے لئے بھی موجود ہیں۔ دی آرٹ آف وار میں سے پہلے پاکستانی حکمرانوں کے حوالے سے کچھ اقتباسات پڑھتے ہیں۔ ’’فن حرب کے پانچ بنیادی اجزاء ہیں جن پر غوروخوض کرنا ضروری ہے۔ ان میں اخلاقی قانون، آسمان، زمین، سپہ سالار اور طریقِ کارو نظم وضبط شامل ہیں۔ اخلاقی قانون سے مراد لوگوں کا حکمران کے ساتھ مکمل ہم آہنگ ہونا ہے تاکہ لوگ جنگ کے کسی بھی خطرے میں حکومت کا مکمل ساتھ دیں۔ آسمان کا مطلب ہے دن رات، سردگرم، اوقات اور موسم۔ یہاں مصنف کی مراد موسمی تبدیلیاں، دن رات کا سماں اور ہوائوں کا رخ ہے۔ زمین کے باب کی تشریح ایسے کی گئی ہے کہ زمینی راستوں کا علم، گہرائیوں، گھاٹیوں اور وادیوں کی جانکاری، دریائوں نالوں اور جنگلوں کی معلومات، صحرا نخلستان اور پہاڑوں کے بارے میں مکمل معلومات کا ہونا۔ سپہ سالار سے مراد ہے حکمت کی خوبی والا، مخلص، خیراندیش، جرات اور بہادری کا اعلیٰ نمونہ۔ طریقِ کارو نظم وضبط سے مراد فوج کی سب ڈویژنوں میں مناسب تقسیم، افسران کے عہدوں کی درجہ بندی۔ فوجی رسد کے راستوں کی دیکھ بھال اور عسکری اخراجات کا حساب کتاب‘‘۔ جنرل سن زو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’سب جنگوں میں لڑنا اور فتح حاصل کرنا سب سے بڑی بات نہیں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دشمن کی مزاحمت کو لڑے بغیر توڑ دیا جائے۔ حکمرانوں کی اعلیٰ ترین حکمت عملی یہ ہے کہ دشمن کے منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے دیا جائے۔ فتح کے پانچ لوازم ہیں۔ الف)جیتے گا وہ جسے پتہ ہوکہ کب لڑنا ہے اور کب نہیں۔ ب)وہی جیتے گا جسے پتہ ہے کہ اپنے سے طاقتور فوج کے ساتھ کیسے نبرد آزما ہونا ہے اور اپنے سے کم تر فوج کے ساتھ کیسے۔ ج)وہی جیتے گا جس کی فوج کے تمام مراتب کے لوگ یکساں جوش و جذبے سے بھرپور ہوں۔ د)وہی جیتے گا جو ہروقت تیار رہتا ہے۔ ہ)وہی جیتے گا جس کے پاس فوجی صلاحیت ہو اور اس کا بادشاہ اس کے کام میں مداخلت نہ کرتا ہو‘‘۔ چینی جنرل سن زو جنگی کامیابی کے گُر کا خلاصہ یوں بیان کرتا ہے کہ ’’اگر آپ اپنے دشمن کو جانتے ہیں اور خود کو بھی تو آپ کو سینکڑوں لڑائیوں کے نتیجے کے بارے میں بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں لیکن اگر آپ خود کو جانتے ہیں اور دشمن کو نہیں تو جتنی فتوحات آپ حاصل کریں گے اتنی ہی شکستیں بھی‘‘۔ جنرل سن زو کی کتاب دی آرٹ آف وار میں سے اب امریکی صدر ٹرمپ کے لئے کچھ صفحات پڑھتے ہیں۔ جنرل سن زو لکھتا ہے کہ ’’تین صورتوں میں کوئی حکمران اپنی فوج کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ الف)اس بات سے لاعلم کہ اس پر عمل درآمد ممکن نہیں وہ چڑھائی یا پسپائی کا حکم دے دے۔ اِسے فوج کو لنگڑا کردینا کہتے ہیں۔ ب)فوج کو بھی اُسی طرح چلانے کی کوشش کرنا جس طرح مملکت کو چلاتا ہے، اس بات سے بے نیاز کہ فوج کن حالات سے گزرے گی اور یہی بات سپاہیوں کے ذہنوں میں بے چینی پیدا کرتی ہے۔ ج)اچھے برے کی تمیز کئے بغیر فوجی مشیر مقرر کرتا جائے‘‘۔ چینی جنرل سن زو امریکی صدر ٹرمپ کو بھی ایک نصیحت کرتا ہے کہ ’’اگر آپ نہ خود کو جانتے ہیں نہ اپنے دشمن کو تو آپ ہر لڑائی ہاریں گے‘‘۔ اوپر کی سطور میں کتاب دی آرٹ آف وار کا ذکر کرنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی چین سے دوستی کی بہت تکلیف ہے۔ لہٰذا امریکہ کو چینی جنرل سن زو کی کتاب دی آرٹ آف وار کی زبان میں ہی جواب دینا چاہئے۔ اس کے علاوہ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ پاکستانی لوگوں کو ٹرمپ کی ایسی دھمکیوں کے خلاف ضروری منصوبہ بندی ضرور کرنی چاہئے لیکن ہیجانی کیفیت سے بچنا چاہئے کیونکہ گزشتہ 70 برسوں سے امریکہ پاکستان کے ساتھ ایسی ہی دھمکیوں اور دھوکے بازیوں کی بنیاد پر اپنے خارجہ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے۔ لہٰذا ٹرمپ کا نئے سال کے موقع پر پاکستان کے لئے دھمکی آمیز پیغام کوئی نیا نہیں ہے۔ نئے سال پر امریکہ کے پرانے رویئے کے حوالے سے فیض احمد فیض کی ایک نظم ’’اے نئے سال بتا‘‘ ملاحظہ ہو۔ 

اے نئے سال بتا، تجھ میں نیا پن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس نہ بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ اِن آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی

ای پیپر دی نیشن