اُردو کا نفاذ: آئین سے روگردانی

Jan 05, 2019

سید روح الامین

کلمۂ حق کہنے اور سیدھی بات کرنے کی نہ صرف اسلا م نے اجازت دی ہے بلکہ اس کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے۔ خلیفہ راشد حضرت عمر سے جب ایک عام آدمی نے سوال کیا کہ جناب کپڑا آپ کو ایک ملا تھا تو اس سے پورا لباس کیسے بن گیا؟ اس آدمی پر نہ ہی کوئی مقدمہ بنایا گیا نہ سزا دی گئی، بلکہ حضرت عمرؓ کے بیٹے نے یہ جواب دیکر اس کو مطمئن کردیا کہ میں نے اپنا کپڑا بھی والد صاحب کو دیدیا تھا۔ آج میں چند حقائق بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جو کہ آئین کی پاسداری کے متعلق ہیں۔ انہیں نہ ہی کسی کی توہین گردانا جائے نہ ہی عدالت کی توہین تصور کیا جائے۔ اگر میری سیدھی سی بات کو جو کہ مکمل آئین پر عملدرآمد کے بارے میں ہے پھر بھی اسے توہین عدالت سمجھا جاتا ہے تو میں ذاتی طور پر اس کیلئے ہر قسم کی سزا کیلئے تیار ہوں۔ قومی زبان اردو کے نفاذ کے بارے میں قیام پاکستان سے لیکر آج تک جان بوجھ کر اغماض برتا جا رہا ہے۔ قائداعظم کے فرامین کی صریحاً نفی کی جا رہی ہے۔ پھر 1973ء کا آئین بنا۔ اردو کے نفاذ کی مدت پندرہ سال یعنی 1988ء تک مقرر کر دی۔ 1988ء سے لیکر آج 2018ء تک تیس سال گزر چکے ہیں کسی حکومت نے اور نہ ہی عدلیہ نے اس کو سنجیدہ لیا ہے۔ اب تو آئین کی کسی بھی شق پر عمل نہ کرنے کو سپریم کورٹ خود غداری قرار دے چکی ہے۔ 22 نومبر 2018ء کو سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ محفوظ کیا۔ جس میں لکھا ’’ملک کا مستقبل طاغوتی قوتیں طے کریں گی یا پارلیمنٹ کوئی قوت آئین کے تابع نہیں تو وہ غدار ہے۔‘‘ دھرنے کے فیصلے کے بارے میں سپریم کورٹ نے مزید یہ لکھا۔ ’’اگر آرٹیکل 19 پر عمل نہیں کرنا تو پارلیمنٹ آئین سے نکال دے۔‘‘
اب نفاذ اردو کے بارے آئین کی شق (1) 251 کا تیس سال سے مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ دھرنا کیس کے ساتھ موازانہ کیا جائے تو درج بالا فیصلے کی روشنی میں پھر یہ بھی تصور کیا جائیگا کہ جو حکمران یا کوئی بھی صاحب اقتدار جو نفاذ اردو کے بارے آئین کی شق (1) 251 پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ یا اس پر عمل نہیں کرنے دے رہا تو وہ بھی کھلم کھلا ’’غداری‘‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اس بارے میں واضح حکم دے چکے ہیں کہ اردو کو آئین کے مطابق نافذ کیا جائے۔ اس کے باوجود نہ ہی کسی حکومت نے اس جانب توجہ دینا مناسب سمجھا نہ ہی عدلیہ نے اس اہم فیصلے پر عملدرآمد کرانا ضروری سمجھا۔ یہ کون سی آئین کی پاسداری کے دعوے ہیں۔ موجودہ چیف جسٹس صاحب نے بھی اپنی ہی عدالت کے اس فیصلے پر عمل کرانے پر توجہ نہیں دی۔ یہ معاملہ آئین کی پاسداری کا ہے۔ یہاں کسی حکومت یا عدلیہ کے پسند یا ناپسند کے مطابق فیصلہ نہیں ہوگا۔ بلکہ 1973ء کے آئین کی روح کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ اگر کسی کو اردو پسند ہو یا نہ ہو مگر فیصلہ تو آئین کے مطابق ہی ہو گا چاہے کسی کو اچھا لگے نہ لگے۔ گذشتہ دنوں ہمارے موجودہ چیف جسٹس صاحب نے راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں مکمل انگریزی زبان میں خطاب فرمایا۔ یہی خطاب اگر اُردو میں ہوتا تو ہرکسی کو سمجھ آتا۔ یا تو پارلیمنٹ سے کہہ کر اردو کے بارے شِق کو نکال دیا جائے یا پھر ہر کسی کو بیشک وزیراعظم، چیف جسٹس صاحب یا کوئی عام شہری ہو آئین کے مطابق اس شق پر عمل کرنا ہو گا۔ ورنہ یہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق غداری ہوگی۔ اگر کوئی اس ملک میں قائداعظم اور 73ء کے آئین کے برعکس کسی زبان مثلاً انگریزی کو ہی قومی زبان کا درجہ دینا چاہتا ہو تو اس کا یہ خواب کم از کم پاکستان میں تو پورا نہیں ہو گا۔ ایسی ہی ایک جسارت گذشتہ حکومت میں ن لیگ کی رکن ماروی میمن نے کی تھی کہ انگریزی کو پاکستان میں قومی اور سرکاری زبان کا درجہ دے دیا جائے۔ پھر نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر جناب سعید آسی نے جب اپنے کالم میں اس نامناسب جسارت کا نوٹس لیا تو موصوفہ ایک دم خاموش ہو گئیں۔ قائداعظم کے پاکستان میں اُن کے فرامین کا ہی بول بالا ہو گا۔ چاہے کسی کو اچھا لگا یا بُرا اُسے قائداعظم اور آئین پاکستان جو کہ ایک متفقہ آئین ہے اُس کے مطابق ہی چلنا ہو گا۔آئین کی پاسداری کا یہ بھی مطلب نہیں کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تُھو تُھو بلکہ آئین کی ہر ایک شق پر عمل کرنا ہی آئین پاسداری کی کہلائے گا۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے گذشتہ دنوں مظفر آباد میں ایک تقریب کے دوران فرمایا۔ کہ قومی زبان اُردو کو فوراً نافذ کرنا چاہئے۔ اُنہوں نے تو یہاں تک کہا کہ ہمارے ججز صاحبان کو انگریزی آتی ہی نہیں ہے۔ بہر حال اب وقت آگیا ہے کہ آئین کا احترام نہ صرف زبان کلامی کیا جائے بلکہ عملی طور پر آئین پر عمل پیرا ہو کر قومی زبان اُردو کو قائداعظم کے فرامین، 1973ء کے آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق فوراً نافذ کیا جائے۔ وزیراعظم صاحب کو اس جانب فوری توجہ دینی چاہئے اور یکساں تعلیمی نصاب کے ساتھ پہلے قومی زبان اُردو کو نافذ کرنا ہوگا …؎
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے

مزیدخبریں