زرداری‘ مشرف‘ ملک قیوم کیخلاف این آر او کیس ختم‘ 18 ویں ترمیم کا جائزہ نہیں لے رہے : سپریم کورٹ

Jan 05, 2019

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے سابق صدر مشرف، آصف زرداری اور ملک قیوم کے خلاف این آر اوکا فائدہ لینے سے متعلق فیروز شاہ گیلانی کی درخواست نمٹاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ زرداری، پرویز مشرف اور ملک قیوم کے اثاثوں کی تفصیل آچکی آگے قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، عدالت نے تینوں کے خلاف این آر او کیس ختم کر دیا، درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی سے متعلق استفسار کرنے پر چیف جسٹس کو بتایا گیا کہ فیروز گیلانی علیل ہیں، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا عدالت نے فریقین کو نوٹس بھیجے تھے، پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور ملک قیوم اثاثوں کی تفصیلات اور بیان حلفی جمع کرا چکے ہیں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، سپریم کورٹ نے اٹھارہویں ترمیم میں صوبائی اختیارات سے متعلق معاملہ میں سینٹر رضا ربانی کی فل کورٹ بناکر کیس کا فیصلہ کرنے کی استدعا مسترد کردی، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر صوبے صحت کے شعبہ کی بہتری کیلئے کوشش نہ کریں تو کیا وفاقی حکومت مدد کے لیے نہ آئے ،آپ چاہتے ہیں وفاق صرف گرانٹ دے باقی کردار صوبوں کا ہو کیا غریبوں کو صوبائی حکومتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں ، چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ اگر صوبے صحت کے شعبہ کی بہتری کیلئے کوشش نہ کریں تو کیا وفاقی حکومت مدد کے لیے نہ آئے؟؟کیا صوبے کو صحت کے شعبہ کا مکمل اختیار دیدیا جائے؟کیا وفاقی حکومت لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکے گی؟ اس پرسینیٹر رضا ربانی نے کہاکہ ہوسکتا ہے میری تشریح غلط ہو، آئین کی منشا ہے کہ صحت کا شعبہ صوبے دیکھیں گے، اگر ہسپتال صوبوں کو نہیں ملیں گے تو آئین کامتعلقہ آرٹیکل وقعت کھو بیٹھے گا، چیف جسٹس نے کہاکہ18 ویں ترمیم کو عدالت عظمی نے آئینی اور درست قرار دیا ہے، یہ کوئی لیگل سیاسی ایشو نہیں، ہمارے سامنے چھوٹے بڑے صوبے کا سوال نہیں ہے ہمیں چھوٹے بڑے صوبے کا تفرقہ پیدا نہیں کرنا چاہیے،عدالت کے سامنے سوال قانونی ہے،عدالت نے صرف قانونی نقطہ کی تشریح کرنی ہے،چیف جسٹس نے کہارضا ربانی آپکی طویل سیاسی جد و جہد ہے، سیاسی جد جہد کرنے والی شخصیات کو چھوٹے بڑے صوبے کا تفرقہ پیدا نہیں کرنا چاہیے، کیاآپ چاہتے ہیں غریبوں کو صوبائی حکومتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں،آپ کے مطابق وفاقی حکومت ہسپتال بنا کر صوبے کے حوالے کر دے، کیاآپ چاہتے ہیں وفاق صرف گرانٹ دے باقی کردار صوبوں کا ہو ؟ رضا ربانی نے کہاکہ 1935 کے آئین میں بھی صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس تھا۔1935 کا قانون متحدہ ہندوستان میں انگریزوں نے بنایا۔پاکستان جدوجہد کے نتیجہ میں حاصل ہوا،ہمیں اپنی تاریخ اپنے آئین سے شروع کرنی چاہیئے ، رضاربانی نے کہاکہ وفاقی حکومت کے صحت کے شعبے میں کام کرنے سے صوبائی اور وفاقی حکومت کے مابین تنازعہ پیدا ہوگا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ وفاقی حکومت صوبائی ریگولیشن کو فالو کریگی تو صوبائی تنازعہ پیدا نہیں ہوگا۔۔ وفاقی حکومت کے ہسپتال کو صوبائی ریگولیشنزسے استثنی نہیں ہوگا،سینیٹررضا ربانی نے کہا کہ ریاست میں وفاقی ۔صوبائی اور لوکل حکومتیں شامل ہیںوفاقی حکومت صوبے میں ہسپتال بنا سکتی ہے مگر اس کو چلا نہیں سکتی۔اگر وفاقی حکومت صوبے میں ہسپتال بنا کر چلائے گی تو آرٹیکل 137 اپنی اہمیت کھو بیٹھے گا۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئین کاآرٹیکل 137 اپنی اہمیت کیسے کھو بیٹھے گا؟ رضا ربانی صاحب اتنا بڑا بیان نہ دیجئے ،لائبریری اور میوزیم کو بھی صوبے ٹیک اوور کر لیں ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ وفاقی حکومت صوبے میں لائبریری اور میوزیم کو کنٹرول اور فنانس کر سکتی ہے۔ رضا ربانی نے کہاکہ آئین لائبریری اور میوزیم کی حد تک وفاقی حکومت کو اختیار کے استعمال کی اجازت دینا ہے۔ جناح ہسپتال کا تاریخی منظر دینے کا مقصد آئینی غلطی کی نشاندہی کرنا ہے۔ 1961 میں یہ ہسپتال صوبے کو مل جانا چاہیے تھا۔ 1961سے یہ غلطی ہوتی چلی آئی ہے 1961 میں وفاقی دارلحکومت کراچی سے اسلام اباد منتقل ہو گیا ۔ رضا ربانی کا کہنا تھاکہ غلطی کی درستگی کے لیے آئینی تقاضے کے آگے بند باندھا جانا چاہیئے ، اٹھارہویں ترمیم عمل درآمدمیں سفارشات دی گئیں کوئی احکامات نہیں دئیے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اداروں کی تحلیل کے فیصلے کابینہ نے کیے۔ دلائل دیتے ہوئے وکیل سینٹر رضا ربانی نے کہا کہ عدالت نے معاملے پر مختلف سوالات اٹھا رکھے ہیں مناسب ہو گا معاملہ پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت اٹھارہویں ترمیم کا جائزہ نہیں لے رہی ہمارے سامنے ایشو اٹھارہویں ترمیم کے تحت چند ہسپتالوں کی تحلیل کا ہے ۔رضا ربانی نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد کلیر یٹی کے لیے 19 ترمیم لائی گی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عام شہری ملک کے کسی حصے میں نجی ہسپتال بنا سکتا ہے.وفاقی حکومت کے لیے پابندی ہے. وہ صوبے میں ہسپتال تعمیر کر کے نہ چلائیں۔سپریم کورٹ نے ریلوے کو وفاقی اور صوبائی زمین کی فروخت سے روکتے ہوئے قراردیاکہ پاکستان ریلوے کے قبضہ میں کسی سرکاری زمین پر ہاوسنگ سکیم نہیں بنا سکتی ،پاکستان ریلوے اراضی 5 سال سے زائد عرصہ کیلئے لیز پر نہیں دے سکتا،عدالت نے ریلوے اراضی سے متعلق معاملہ نمٹا دیا ۔وزیر ریلوے شیخ رشید عدالت میں پیش ہوئے ، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کوئی جائیداد ریلوے کی ہے تو ریلوے اسکو لیز پر دے سکتی ہے فروخت بھی کر سکتی ہے سوال صرف اس عمل کے شفاف ہونے کا ہے ،اگر اراضی ریلوے سے واپس لینا ہے تو پھر باقاعدہ کیس داخل کر نا ہو گافیصلہ میں لکھ دیتے ہیں ریلوے کسی سرکاری زمین کو فروخت نہیں کر سکتی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ جو زمین ریلوے کو نہیں چاہیے صوبائی حکومت کو واپس کر دے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ زمین تو آئندہ 200 سال کو مد نظر رکھ کر دی گئی تھی، چیف جسٹس نے کہاکہ سندھ حکومت کو اراضی واپس چاہیے تو آئین کے آرٹیکل184/3 میں علیحدہ درخواست دے،شیخ رشید نے کہاکہ عدالت سے استدعا ہے 3-5 سال لیز پر اراضی دینے کی اجازت دی جائے کیونکہ لیز کی آمدن 3 ارب روپے ہے۔ ریلوے خسارے میں ہے یقین دہانی کرتے ہیں کہ ایک مرلہ بھی ریلوے اراضی فروخت نہیں کی جائے گی۔سپریم کورٹ نے اوورسیز پاکستانی کی جانب سے اسلام آباد میں ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے قیام کے لئے زمین فراہمی کا معاملہ 2روز میں حل کرنے کی ہدایت کر دی۔ سپریم کورٹ نے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت بغیر کارروائی کے ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ نے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کا ایک ہفتے میں بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ بورڈ ارکان کے لئے نامزد افراد کے کوائف کا جائزہ لے کر نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔ بورڈ کے لیے مجوزہ ناموں کی فہرست عدالت میں پیش کی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بورڈ ممبران کے مجوزہ ناموں میں کسی خاتون کا نام نظر نہیں آرہا، پنجاب حکومت کے نمائندہ نے امجد اسلام امجد کا نام فہرست سے پڑھنا شروع کیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا امجد اسلام امجد عورت ہے؟ جس پر کمرہ عدالت میں موجود افراد ہنس پڑے۔
این آر او کیس

مزیدخبریں