پاکستان کے شعبہ معدنیات میں ایم او یوپر جلد دستخط کیے جائینگے،سعودی مشیر

کراچی (کامرس رپورٹر) سعودی مشیر برائے توانائی و معدنی وسائل احمد الغمدی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے لیے پاکستان صرف ایک بیرونی ملک نہیں بلکہ مضبوط تعلقات اور یکساں مذہب، ثقافت اور روایات کے ساتھ برادر ملک ہے۔دونوں ملک مضبوط اور تاریخی تعلقات کے حامل ہیں لیکن بدقسمتی سے کچھ عرصے کے لئے جمود کا شکاررہے لیکن حال ہی میں دونوں ملکوں نے تعلقات کو پہلے سے کئی زیادہ بہتر بنانے کے لئے مثبت کوششیں کی ہیں۔ہم ساتھ مل کر بہت کچھ کرنا چاہتے ہیںتاہم اس میں کچھ وقت لگے گا۔ یہ بات انہوں نے سعودی کاروباری وفد کے ہمراہ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کے موقع پر اجلاس میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہی۔ پاکستان میں سعودی سفارتخانے کے کمرشل اتاشی ایم احمد اسیری، کے سی سی آئی کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا، سینئر نائب صدر خرم شہزاد، نائب صدر آصف شیخ جاوید، سعودی وفد اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔سعودی مشیر نے دونوں ملکوں کی کاروباری برادریوں کو تجویز دی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ متواتر ملاقاتیں کریں اور سعودی عرب و پاکستان میں منعقد ہونے والی تجارت کے فروغ کی تقریبات میں شرکت کریں جس کے نتیجے میں تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔انہوں نے کہاکہ سعودی نجی شعبہ پاکستان میں دستیاب مواقعوں سے بے خبر ہے اور وہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سرمایہ کاری کرنے سے ڈرتے ہیں۔ احمد الغمدی نے کہاکہ سعودی عرب پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے منصوبے شروع کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور امید ہے کہ ایک سعودی کمپنی ایکوا پاور قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز بشمول سولر، ونڈ اور دیگر ٹیکنالوجیز متعارف کروانے کے لیے جلد ہی پاکستان کا دورہ کرے گی۔ہم نے پاکستان کے معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقعوں پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے اور اس ضمن میں باہمی مفاہمت کی یاداشت ( ایم او یو) آخری مراحل میں ہے جس پر جلد ہی دونوں ملکوں کی جانب سے دستخط کیے جائیں گے جو سعودی عرب اور پاکستان کے نئے تعلقات کے آغاز کا باعث ہوگا۔انہوںنے کہا کہ پاکستان میں سعودی سفارتکار بہت اچھاکام کررہے ہیں اور وہ تمام پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کرکے دوطرفہ تعلقات کو بہتر کرنے کی شاندار کوششیں کرنے میں مشغول ہیں۔ دونوں ملکوں کے بہترمستقبل اور کامیابیوں کو یقینی بنانے کے سلسلے میں ہماری پیش رفت کافی اچھی ہے۔احمد الغمدی نے وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤد کے ساتھ دو ماہ قبل ہونے والے اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اجلاس کے دوران انھوں نے دونوں ملکوں کو بعض درآمدی و برآمدی مسائل کے بارے میں پوچھاجن کے نتیجے میں تجارت متوقع سطح سے کم ہے۔ہم ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور سعودی و پاکستانی نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی پہلے ہی قائم کردی گئی ہے جو رکاوٹوں کی نشاندہی کے علاوہ یہ حکمت عملی وضع کرے گی کہ کس طرح چیزوں کو آسان بناتے ہوئے مسائل کو حل کیا جائے ۔قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا نے سعودی وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ کراچی چیمبر کا وفد ان کی سربراہی میں 12 جنوری2019کو سعودی عرب روانہ ہوگا تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بڑحانے کے مواقعوں کو تلاش کیا جاسکے۔ انہوںنے سعوی حکومت کی جانب سے پاکستان کو 3ارب ڈالر کی غیر ملکی کرنسی کی امداد فراہم کرنے کو سراہا جو پاکستان کی ادائیگی کے بحران کے حل کے لیے ایک سال مدت کے لیے دیے گئے ہیں نیز ایک سال کے لیے3ارب ڈالر مالیت کے درآمدی آئل کی سہولت فراہم کرنے کو بھی سراہا جس کا کراچی کی تاجروصنعتکار برادری تہہ دل سے خیر مقدم کرتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ 2017کے دوران 400.8ملین ڈالر مالیت کی اشیاء سعودی عرب برآمد کی گئیں جبکہ درآمدات2.73ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جو 2.32ارب ڈالر کی تجارت کے ساتھ سعودی عرب کے حق میں ہے۔جنید ماکڈا نے کہاکہ کراچی اور سندھ خوراک کی پروسیسنگ،ڈیری کی پیدوار اور پروسیسنگ،کان کنی،معدنیات نکالنے ، سمندری خوراک کی پروسیسنگ،اربن ریپڈ ٹرانسپورٹ، کھجور اور آم کی کاشتکاری و پروسیسنگ،ونڈ اور سولر انرجی میںمواقع فراہم کرسکتا ہے۔انہوں نے زوردیاکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے اور دستیاب مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کا یہی مناسب وقت ہے۔انہوں نے مشترکہ کوششوں پر زور دیتے ہوئے تجویز دی کہ کے سی سی آئی اور سعودی عرب کے چیمبرز کے درمیان باہمی مفاہمت کی یادداشت ( ایم او یو) پر دستخط کیے جائیں تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت تعلقات کو بہتر بنایا جاسکے۔کے سی سی آئی کے صدر نے سعودی عرب کی درآمدی و برآمدی پالیسی کی تفصیلات مانگتے ہوئے کہاکہ سعودی بندرگاہوں پر اشیاء کی کلیئرنس میں تاخیر کی وجہ سے پاکستانی برآمدکنندگان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں 10دن تک لگ جاتے ہیںاور پاکستانی برآمدکنندگان کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے سعودی حکام سے درخواست کی کہ سعودی بندرگاہوں پر کلیئرنس کا عمل تیز کیاجائے تاکہ تجارت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی حوصلہ افزائی ہو۔انہوں نے پاکستانیوں کے لیے ویزہ پالیسیوں خصوصاً بزنس ویزہ کو آسان بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کیونکہ ویزے کے پیچیدہ طریقہ کار کی وجہ سے پاکستانی تاجروصنعتکار برادری کے لیے سعودی تاجروں کے ساتھ تعلقات کوبہتر بنانے میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے جسے آسان بنانے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن