5 جنوری پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم قائد عوام ذوالفقار علی بھٹوشہیدکا یوم ولادت ہے۔ نئی نسل کے لوگ ذوالفقار علی بھٹو سے براہِ راست متعارف نہ ہیں نہ انہوں نے بھٹو صاحب کی جدوجہد دیکھی اور نہ حکومت لہٰذا ہم ذوالفقار علی بھٹو کو تاریخ کے جھروکوں سے دیکھتے ہیں اور شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، سیاسی کارکنوں کے ذریعے انہیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ درحقیقت ذوالفقار علی بھٹو وہ کرشماتی کردار ہے جسے سمجھنا بہت آسان بھی ہے اور شاید ناممکن بھی۔ یہ وہ شاندار کردار ہے جس نے ایسی سیاسی وراثت کی بنیاد رکھی کہ آج بھی پاکستان کی سیاست کا محور یہ کردار ہے۔ بھٹو کے فلسفے کو ماننے والے تو اُسکی پیروی پر فخر کرتے ہیں مگر بھٹو کے مخالف بھی کسی نہ کسی طرح بھٹو ہی کی تقلید کرتے سیاست میں کسی طور زندہ ہیں۔ یہ ہے وہ مقام جو شاید کوئی اور پاکستان کی تاریخ میں حاصل نہ کر سکا۔قیام پاکستان کے بعد اور قائدا عظم کی رحلت کے بعد ملک کو کوئی ایسا رہنما میسر نہ آیا جو اُن کی رہنمائی کرتا ۔روائتی سیاست دانوں کی حکومتیں اور آمریت کے طویل ادوار نے پاکستان کے عوام کو شدید مایوس کیا اسی دوران جالب عوام کی آواز میں حکمرانوں کو چیلنج کر رہا تھا اور اُن کی تابعداری سے انکاری تھا۔اسی دوران ایک آواز اُٹھی اور پاکستان کے محروم طبقات اسے اپنی آواز سمجھنے لگے۔ ہر دہقان محنت کش ، نوجوان ،طالب علم ، وکیل، دانشور، شاعر نیز پسے اور کچلے ہوئے طبقہ کا ہر فرد اس آواز کو اپنے دل کی آواز سمجھنے لگا اور یہ آواز تھی بھٹو کی آواز کیونکہ وہ یہی تو کہتے تھے کہ ’’بھٹو ایک نہیں دو ہیں ایک اس بت میں، اس خون میں، اس جسم میں دوسرا تم میں سے ہر ایک بھٹو ہے‘‘ اور عوام کہنے لگے ’’میں بھٹو ہوں ‘‘۔ بھٹو صاحب عوام الناس کو نیا ولولہ عطا کرتے ہوئے کہتے کہ خدا کا ایسا کوئی قانون نہیں کہ صرف عوام ہی مفلس ہوں ۔غربت، بھوک اور بیماری ہمارا مقدر نہیں دوسروں کے سامنے ذلیل مت بنو۔ تم انسان ہو تمہارے بھی برابر کے حقوق ہیں جمہوریت کی مانگ کرو جہاں غریب ترین اور امیر ترین اشخاص کیلئے ووٹ میں برابر کا حق ہے۔صرف جمہوریت ہی غریب عوام کے حقوق کا تحفظ کر سکتی ہے‘‘ ۔اس طرح بھٹو صاحب نے عوام کو سر اُٹھا کر جینے کا حوصلہ دیا آپ نے اشرافیہ ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کے مقابلے میں غریب عوام کسانوں اور محنت کشوں کو زبان دی سیاسی شعور دیا اور اُن کو اُنکے حق کیلئے جدوجہد کرنے کے اسلوب سکھائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام الناس کی جدوجہد کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی جس کا مقصد عوام کو اُس کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی حقوق دلوانا تھا۔ آزادی جمہوریت اور مساوات اسکے بنیادی اُصول ٹھہرے۔ بابا بلھے شاہ کے فلسفے کو ’’گلُی ،جُلی تے کُلی ‘‘ کے تحت روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا ۔یہی بنیادی ضروریات تھیں جو پاکستان کے مفلوک الحال عوام کے پاس نہیں تھیں۔ روٹی ،کپڑا اور مکان تینوں چیزیں پیپلز پارٹی کا ہدف اور غریب عوام کے جم غفیر کا نقطۂ اتصال بن گئیں اور یہ نعرہ گلی گلی گونجنے لگا ’’مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان‘‘۔ بھٹو صاحب کہتے تھے کہ میں نے زندگی میں محبت صرف غریب عوام سے کی ہے اور آپ ہی کا تھا کہنا تھا سیاست کی جنت غریب عوام کے قدموں تلے ہے۔ اس طرح بھٹو نے عوام کی محبت میں ہر محبت کو قربا ن کر دیا اور مظلوموں کے شانہ بشانہ ظالموں سے ٹکرانے کا اعلان کر دیا۔ اسکے بعد بھٹو گلی گلی ، کوچہ کوچہ عوام تک پہنچے اور انہیں بیدار کرنے کیلئے جدوجہد کرنے لگے۔ اسکے بعد بھٹو صرف ایک وجود نہ رہا۔ بلکہ ایک سوچ ، فلسفہ، نظریہ اور تحریک بن گیا اور 1970کے انتخابات میں وہ پسے اور کچلے ہوئے لوگ جنہیں لوہار، ترکھان، موچی وغیرہ میں تقسیم کیا گیا اور سیاسی فیصلوں سے دور رکھا گیا وہ ناصرف ووٹ کا حق لینے میں کامیاب ہوئے بلکہ اقتدار کے ایوانوں تک جا پہنچے اور پاکستان میں انقلاب کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سے خوفزدہ ہو کر طالع آزمائوں نے پاکستان کو دولخت کر دیا اور سیاسی قوتوں کو موقع نہ دیا کہ وہ مل کر پاکستان کو ترقی سے ہمکنار کر سکیں۔ٹوٹے ہوئے پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو نے سنبھالا اور تنکا تنکا جوڑ کر ترقی کا سفر شروع کیا۔ بھارت سے 93ہزار قیدی اور 5ہزار مربع میل کا علاقہ واپس لیا۔ وہ سر زمین جو بے آئین تھی اُسے متفقہ آئین دیا جس میں لوگوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنایا گیا۔ پاکستان کی کمزور دفاعی حالت کے پیش نظر ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی ۔ اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی اور تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ تیسری دنیا کے ممالک کے درمیان اتحاد اور دوستی کے رشتے کی بنیاد رکھی۔چند جاگیرداروں کی نسلوں سے قبضہ کی گئی زمین کو غریب مزارعوں میں تقسیم کیا۔ ملک کی بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا اور محنت کشوں کو اُنکے حقوق دیئے۔ کم از کم مزدوری کا تعین کیا اور اُنہیں اُنکی ملازمتوں کا تحفظ دیا۔ بڑے تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر غریب کیلئے مفت تعلیم کا آغاز کیا جس سے لاکھوں افراد کو جہالت سے نکال کر زیور علم سے آراستہ کرنے کا انتظام ہوا۔ عوام کیلئے شناختی کارڈ کا اجراء ہوا جس سے اُنہیں ریاست کا شہری ہونے کی شناخت ملی۔ پاسپورٹ جو پہلے چند مخصوص اور مراعات یافتہ طبقوں کا حق تھا عام آدمی کو اس کا حقدار بنایا جس کی بدولت غریب لوگ دوسرے ممالک میں روزگار کی غرض سے گئے اور جہاں اُنہیں روزگار میسر آیا وہیں ملک کو زر مبادلہ فراہم ہوا۔ جو آج بھی ہماری معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی کی بدولت گائوں کے کمی (محنت کش) کا بیٹا محنت کی بنیاد پر معاشی طور پر مستحکم ہوا۔ اس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے پرانی روایات کا خاتمہ کیااور وہ پاکستان جس میں رسم تھی کہ ’’کوئی نہ سر اٹھا کہ چلے‘‘ اس کو تبدیل کر دیا اور عوام کو حق حا کمیت دے کر خلق خدا کا راج قائم کیا اور یوں نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جہاں عوام سر بلند کر کے کہنے لگے کہ ’’ کوئی نہ سر جھکا کے چلے‘‘ ۔