تاریخ ساز شملہ معاہدہ ایک تاریخی کارنامہ 

 فرزانہ چوہدری
  زندہ  قومیں اپنے محبوب ہیروز کا جنم دن منا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔ ایسے ہی قومی ہیروز میں ایک نام ذوالفقار علی بھٹو کا بھی ہے۔ مرحوم رانا شوکت محمود ، ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں تھے۔ رانا شوکت  محمودکے بقول وہ ذوالفقار علی بھٹو کے ملک وقوم کی ترقی ، بقاء اور سالمیت کے کئی ایک تاریخی کارناموں کے چشم دیدہ تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے ا ن کے بتائے بہت سے تاریخی  کارناموں  میں سے ایک  اہم  کارنامہ ’’شملہ معاہدہ‘‘ کی پس پردہ کہانی،سابق وزیر اعظم پاکستان اور پیپلز پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر نذر قارئین ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان ہونے والا شملہ معاہدہ  دنیا کے لیے ایک تاریخی کارنامہ تھا۔ یہ معاہدہ پاکستان کی  بقاء وسالمیت سمیت پاک افواج کی عزت و تکریم میں اضافہ میں سنگ میل کا حامل بنا۔ یہ بھٹو کی ڈپلومیسی کا وہ شاندار ترین کارنامہ ہے جس کو ساری دنیا میں سراہا گیا۔ 1971ء کی جنگ  کے بعد پاکستان نے عالمی نقشے پراپنا مقام  بنایا تھا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے پاکستان کے بدترین دشمن بھارت کو اپنی ذہانت اور سیاسی بصیرت کی بنا پر اپنے من چاہے مذاکرات پر آمادہ کر لیا۔ اس مرحلے پر پاکستان کے لیے بھارت سے اپنے پانچ ہزار مربع میل علاقے کی واپسی اور 90 ہزار قیدیوں کی جنگی مقدمات چلائے بغیر باعزت اور باوقار واپسی اہم ترین امور تھے جبکہ اس وقت بھارت اور بنگلہ دیش کا ارادہ تھاکہ پاکستان کے فوجی افسران کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے چلائے جائیں اگر یہ مقدمات چلائے جاتے تو مشکلات ہوجاتیں۔اس وقت بھٹو کے لیے اپنی منشاء کے مطابق مذاکرات کی تکمیل یقیناً ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔ بھٹو نے اس مسئلے کو نہ صرف اپنے حسن تدبر سے نمٹایا بلکہ وطن اور90 ہزار قیدیوں سے اپنی محبت کی وہ مثال پیش کی جس کی دنیا بھر میں نظیر نہیں ملتی۔ شملہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کے فروغ  اور خطے کے لئے ایک امن معاہدہ تھا۔
جب ذوالفقار علی بھٹو  لاہور سے مذاکرات کے لیے بھارت کے علاقے شملہ روانہ ہوئے تو پوری کابینہ اور متعدد اسمبلی ممبران  کے علاوہ ہزاروں کارکن  ان کو رخصت کرنے ائیر پورٹ آئے ۔ لوگ دعا مانگ رہے تھے یا خدا بھٹو صاحب کی حفاظت کرنااور کامیابی دینا۔اس وقت  ذوالفقارعلی بھٹو نے لاہور ایئر پورٹ پر  تقریر کرتے ہوئے کہا: آج میں ہندوستان جا رہا ہوں۔ میرے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ برصغیر میں ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟ہمارے جنگی قیدیوں کا مسئلہ کیسے حل ہو گا۔ ہم امن چاہتے ہیں۔ لیکن اپنے اصولوں اور وقار کی قیمت پر نہیں۔ ہم منصفانہ اور آبرو مندانہ امن چاہتے ہیں۔ جس سے عوام کی خدمت اور خوشحالی ممکن ہو۔‘‘ 
اس تقریر کے دوران بھٹو نے اپنا کوٹ اتار کر مجمع میں پھینک دیا۔ تقریرکے بعد وہ وی آئی پی ا لائونچ میں بیٹھ گئے۔ پریشانی ان کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔انہوں نے متعدد بار خودکلامی کے انداز میں کہا:یار!میں اندرا گاندھی سے بات چیت تو کرنے جا رہا ہوں مگر میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ سوچتا ہوں کیا دوں گا، کیا لوں گا ؟ افہام و تفہیم کس طرح ہو گی؟ مشکل میں ہوں۔ میں نے تو لینا ہی لینا ہے۔ میرے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں  ہے۔بھارت روانگی سے قبل بھٹو نے پارٹی کے چند اہم رہنماؤں سے مشاورت بھی کی ۔  بھٹو کے شملہ پہنچنے کے بعد شملہ میں مذکرات کی میٹنگ دو د ن چلیں، اور دونوں دن بغیر کسی فیصلہ کے گزر گئے اور ہر نقطہ پر بحث لاحاصل رہی۔ کیونکہ پاکستان کے پاس کوئی موثر دلیل بھارت کے مطالبات کے جواز میں نہ تھی۔  میٹنگ کے آخری دن اور آخری گھنٹہ میں یہی فیصلہ ہوا کہ مذاکرات ناکام رہے ۔ بھارت کی مذاکراتی ٹیم میں شامل بھارت کے سیکرٹری ڈیفنس‘ سیکرٹری خارجہ‘ حتیٰ کہ وزیراعظم اندراگاندھی کا آفس سٹاف تک گھروں کو جا چکا تھا۔ مذاکرات میں کامیابی کی آخری امید بھی دم توڑ چکی تھی۔ الوداعی عشائیہ کا وقت آن پہنچا تھا، بھٹو صاحب  نے بتایا کہ وہ اچانک اٹھے اور سفارتی آداب کے مطابق مسز اندراگاندھی کو الوداع کہنے گئے ۔ انہوں نے اندرا گاندھی کو بازو سے پکڑا اور سائیڈروم میںلے گئے اور کہا: بی    بی بات سنو میری ،تم منتخب وزیراعظم ہو، میں بھی منتخب وزیراعظم ہوں۔ تاریخ ہمیں کیسے یاد کرے گی۔ ہم دونوں اتنے پڑھے لکھے، فارن کوالیفائیڈ ہیں، ہم ایک ایشو آپس میں طے نہیں کر سکے۔  ہم جیسے لوگ شاید پھر نہ آ ئیں، تو اس کا آغاز تو کر جائو، بھٹو نے مسز اندرا گاندھی کو صرف یہ یقین دلا دیاتھا کہ وہ صحیح فیصلہ کر رہی ہیں۔ اندرا گاندھی مان گئیں اور کہنے لگیں جو آپ چاہتے ہیں ٹھیک ہے ۔ اس الوداعی ملاقات میں ہمارے ساتھ وفود نہیں تھے۔ وہاں مختلف انداز سے بات چیت کرنا آسان تھا۔یقینا ً بھٹو کی خوداعتمادی اور دلیری  کی مثال  دنیا کے سربراہان کی تاریخ میں کسی  سربراہ کی نہیں ملے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کے مابین تقریباً ایک گھنٹہ ون ٹو ون ملاقات رہی جس کے بعد وہ دونوں مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر آئے اور بھٹو صاحب نے ڈنر کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: Gentlemen! There is a good news for you. we have reached an agreement and accord
کہا جاتا ہے کہ اس وقت وہاں پر موجود ہر شخص کی آنکھیں حیرانی سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔یہ وہی شملہ معاہدہ ہے جس کے تحت پاکستان کو بھارت سے 5 ہزار مربع میل علاقہ واپس ملا، وار ٹرائلز نہیں ہوئے، قیدیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات نہ بنے، 90 پزار جنگی قیدی واپس آئے، بھارت جنگ  کے کسی تاوان کا حق دار نہ ٹھہرا،پاکستان اس میں سرخرو نکلا۔شملہ معاہدہ کا متن اس بات کا  ثبوت ہے  ذوالفقار علی بھٹو محب وطن اور خطے میں امن کے خواہاں قومی ہیرو تھے۔ 

ای پیپر دی نیشن