2020ء اتنی زندگیاں نِگل گیا، اتنے دکھ دے گیا، اتنا کچھ لے گیا کہ پہلی بار کسی سال کا چلا جانا اچھا لگا۔ 2021ء سے پوری قوم ہی نہیں، پوری دنیا کی توقعات وابستہ ہو گئیں۔ سال نو کا جشن چین نے بڑے ہی عمدہ طریقے سے منایا۔ فرانس، اٹلی، جرمنی، امریکہ اور کئی دوسرے ممالک میں بھی نئے سال کی خوشیاں بڑے پیمانہ پر منائی گئیں۔ 2021ء سے دنیا نے اپنی اُمیدوں کا جہان آباد کر لیا۔ دنیا کے ہر شخص کو توقع ہے کہ 2021ء کرونا سے نجات کا سال ہو گا۔ کرونا نے انسانی فطرتوں کو تبدیل کر ڈالا۔ خوف اور دُوری کے مہیب سائے کھڑے کر دئیے ہیں۔ لا محدود انسانوں کو گھروں میں قید کر دیا ہے اور ساری سرگرمیاں معطل کر دی ہیں۔ نئے سال کا پہلا شرمناک اور کربناک حادثہ اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں وقوعہ پذیر ہوا۔ ایک ننھی سے جان اور 22 گولیوں کا عذاب نازل کر دیا۔ اسلام آباد پولیس نے سر ینگر ہائی وے پر اپنے دوست کو گھر چھوڑ کر واپس آنیوالے اکیس سالہ دھان پان سے نو عمر لڑکے اسامہ ندیم ستی پر اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کر ڈالا۔ یہ قتل ریاست کے چہرے پر ایک خون آلود داغ ہے۔ ہر نوجوان کیلئے ایک دہشت اور بر بریت کی علامت ہے۔ اِس لڑکے کا کیا قصور تھا اوراگر کو ئی قصور بھی تھا تو کیا اُسکی سزا قتل تھی؟؟؟اس ملک کی پولیس اتنی خونخوار، بے رحم، سفاک اور منہ زور کیوں ہے۔ کیا ان کی ماں بہن بیٹیاں نہیں ہوتیں؟ کیا ان کے نوجوان بیٹے نہیں ہوتے؟کیا انکی بیویاں بچے نہیں۔ پاکستان میں مخبوط الحواسی بڑھتی جا رہی ہے۔ جن لوگوں کا کام اسلام کی تبلیغ کرنا ہے۔ وہ اسلام کے بجائے اسلام آباد کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ انھیں ہم اسلام سے زیادہ اسلام آباد کی محبت میں غرق دیکھ رہے ہیں۔مولانافضل الرحمان نے فرمایا ہے کہ ہم حکومت کو سمندر میں غرق کر نے تک لڑیں گے۔ اگر مولانا فضل ا الرحمان جو بر سا برس کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے اور ہر ماہ لاکھوں روپے تنخواہ، لاکھوں روپے کی مراعات، عیش و عشرت، گاڑیاں، کوٹھی بنگلے، ملازمین اور کشمیر فنڈ کھاتے اور موج اڑاتے رہے۔ انھوں نے تب نہیں کہا تھا کہ میں کشمیر فتح کرنے کیلئے بھارت کو گنگا جمنا میں غرق کرنے تک لڑتا رہوں گا، چاہے میری جان ہی نہ چلی جائے۔ مولانا فضل الرحمان نے تو 520دن تک کشمیر میں ہونیوالے مظالم پر بھارت کو کوئی دھمکی نہیں دی اور نہ ہی کشمیر یوں کی آزادی، انصاف اور حقوق کیلئے کوئی قدم اٹھایا لیکن اقتدار کی خاطر وہ حکومت کو سمندر بُرد کرنا چاہتے ہیں اور بھول گئے ہیں کہ حکومت کراچی میں نہیں، اسلام آباد میں ہے اور سمندر اسلام آباد میں نہیں، کراچی میں ہے۔ مریم بی بی نے کہا ہے کہ مولانا حکم کریں تو عوام کا رخ اسلام آباد کی طرف موڑ دوں گی۔ مریم بی بی کو چاہیے کہ خوش فہمی کی دنیا سے باہر آ جائیں۔ ابھی آپ لیڈر نہیں بنیں کہ عوام کے رخ بدلیں۔ آج جو جلسوں اور پروٹوکول کے مزے لو ٹ رہی ہیں ۔ وہ محض اس لئیے کہ آپ نواز شریف کی بیٹی ہیں۔ آپکے نام کے ساتھ نوازشریف کا ٹیگ لگا ہوا ہے۔ اسی لئے آپ نے شوہر کا نام نہیں لگایا۔ بی بی اگر آپکے نام کے آگے سے ’’نوازشریف ‘‘ ہٹا دیا جائے تو آپ کو چوکیدار بھی سلام نہ کرے۔ یہ سب کرامات تو باپ کی وجہ سے ہیں۔ آپ نے تو کبھی کالج یونین یا کونسلر کا الیکشن نہیں لڑا۔ آپ میں ایسی کیا خوبی ہے یا آپ نے قوم کی ایسی کیا خدمات انجام دی ہیں یا ملک کیلئے کیا قربا نیاں دی ہیں کہ عوام اپنا قبلہ اسلام آباد کی طرف کر لیں گے۔ کیا عوام گونگے بہرے اندھے یا عقل سے پیدل ہیں یہ عوام؟؟؟ نئے سال کی ابتداء پٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل میں اضافے سے ہوئی۔ یہ پڑھی لکھی قوم ہے، پاگل احمق نہیں ہے۔ اس طرح کی خبریں لگوا کر سمجھتے ہیں کہ وہ امیر المومنین بن جا ئیں گے کہ جی وزیر اعظم نے مصنوعات کے نرخ 14روپے سے زائد بڑھانے کی سمری مسترد کر دی۔کمال ہے کہ14 روپے کی سمری مسترد کر کے ایل پی جی کی قیمت 16 روپے کلو بڑھا دی۔ اسی طرح پٹرول ڈیزل مٹی کے تیل کی قیمتیں 3 روپے لٹر بڑھا دیں۔ قیمت بڑھانے کی کوئی تُک نہیں تھی۔ اگر قیمتیں 16 روپے لٹر کم کی جاتیں تو قوم مانتی کہ وزیراعظم کو قوم کا درد ہے۔ قیمتیں بڑھا بڑھا کر قوم کے درد کی باتیں کرنا زخموں پر نمک بلکہ مرچیں چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ہماری مثال تو ایسی ہے کہ :
انکھیوں کے جھروکے سے میں نے دیکھا جو سانورے
تم دُور نظر آئے، بڑی دُور نظر آئے۔
٭…٭…٭