بھٹو  …عمرجاوداں کا سراغ 

Jan 05, 2021

بیرسٹر عامر حسن

5 جنوری 1928قائد عوام ذولفقار علی بھٹو کا یوم ولادت ہے ذوالفقار علی بھٹو ایسا کرشماتی اور لافانی کردار ہے جس کی زندگی اعلیٰ ظرفی عظمت ہمدردی اور فراخدلی کا بہتا ہوا دریا تھی۔ بھٹو نے جابرانہ طاقتوں کے خلاف انتہائی دلیری سے مقابلہ کیا تاکہ سچائی ، انصاف اور مساوات کا عکاس ایک خوبصورت معاشرہ قائم ہو سکے۔ بھٹو، ذوالفقار ِعلی بن کر آئے تاکہ محروم عوام کے پیروں میں پڑی ہوئی استحصال کی زنجیریں توڑ دے۔ بھٹو کی ذات کروڑوں بدنصیب انسانوں کیلئے جو اس سر زمین کی اتھاہ تاریکیوں میں زندگی گذار رہے تھے ایک خدا داد نعمت تھی جیسے آسمان کا روشن ترین ستارہ آسمان کو منور کرتا ہے اُسی طرح وہ محروم عوام کی اندھیری زندگی میں اُمید حوصلے روشن مستقبل خوشحال زندگی اور مسکراہٹوں کا ایک روشن مینارہ تھا۔ پاکستان کے قیام کے چند سال کے اندر قائد اعظم کی رحلت نے ملک کو حقیقی قیادت سے محروم کر دیا۔ لہٰذا تقریباً25سال تک پاکستان کے لوگوں کو رعایا اور محکوم ہی سمجھا گیا اور انہیں ریاست کے معاملات سے لا تعلق رکھا گیا۔ معاشی اور سماجی انصاف ناپید ہوتا گیا۔ بے چینی بڑھنے لگی اور تقسیم کا عمل تیز تر ہو گیا لہٰذا فلاحی ریاست کا تصور دھند لانے لگا۔ خالق کو اپنی مخلوق پر رحم آیا اور پاکستان کے لوگوں کو بھٹو شہیدجیسا قائد میسر آیا ۔ جس نے جناح کے وژن کو آگے بڑھانے کا عزم کیا۔ بھٹو نے ملک کے گلی کوچوں میں لوگوں سے رابطہ استوار کیا اور محروم طبقات کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک نئی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا اور سماجی ، معاشی اور سیاسی ڈھانچوں میں ایک انقلابی تبدیلی کا منصوبہ پیش کیا ۔ 
بھٹو شہید نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے کرشماتی نعرہ دیا کہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام‘‘ یعنی پاکستان کے عوام اور صرف عوام ہی اس انقلاب کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ اس طرح پہلی دفعہ پاکستان کے لوگوں کو رعایا سے عوام بنانے کی جدوجہد کا آغاز ہوا جس سے غریب جاگنے لگے کاخِ امراء کے درو دیوار ہلنے لگے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی عوام میں بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے لگی اور غریب اور محروم طبقات کی آنکھوں میں امید کی چمک نظر آنے لیگ۔ مزدور، کسان، طالبعلم، خواتین، وکلاء دانشور نیز پسے اور کچلے ہوئے تمام طبقات اپنی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے لگے اور تقسیم کی ایک واضح لکیر نظر آنے لگی ایک طرف با اختیار حاکم طبقہ تھا اور دوسری طرف بے اختیار محکوم طبقہ جسے رعایا یا غلام سمجھا جاتا تھا مگر بھٹو کی للکار نے انہیں ایسی جرات بخشی کہ ان بے اختیاروں نے با اختیاروں سے ٹکرانے کا فیصلہ کر لیا ۔ مزدور سرمایہ دار کے مقابل کھڑا تھا۔ کسان جاگیر دار کا ظلم مزید سہنے سے انکاری تھا۔ طالبعلم جہل کو جاننے سے انکار کر رہا تھا۔ خواتین تنگ نظری سے سے نبردآزما تھیں۔ وکلاء نا انصافی کے ضابطوں کے مخالف کھڑے تھے۔ دانشور، تاریک و بہیمانہ روایات کا قلع قمع کرنے کو تیار تھے ۔ پسے اور کچلے ہوئے طبقات نے استحصالی ان طبقات سے بغاوت کا اعلان کر دیا تھا۔
قائد عوام نے اس بغاوت کو نظام کی حد تک رکھا اور ریاست کے مقتدر حلقوں کو مجبور کیا کہ جمہور کی اس تحریک کو طاقت کی بجائے جمہوریت کے ذریعہ راستہ دیا جائے یوں پاکستان میں پہلی دفعہ عوام کو ایک شخص ایک ووٹ کا حق ملا بلٹ کی بجائے بیلٹ کا راستہ چنا گیا۔ تقش کہن، سلطانیء جمہور کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور بھٹو کی قیادت میں عوام نے دو آمروں کو رخصت کرکے ملک کو پہلا جمہوری نظام دیا۔ ریاست کو پہلا متفقہ آئین دیا اور آئینی طور پر عوام کو اس کا حق حکمرانی عطا کیا جس کی بدولت رعایا کو عوام کا درجہ حاصل ہوا اور عوام ہی طاقت کا سرچشمہ قرار پائے پاکستان میں عوامی راج قائم ہوا۔ ملک میں جمہوریت کے قیام کے بعد سب سے ضروری اور نازک معاملہ معاشی مساوات کے قیام کا تھا ۔ کیونکہ شہیدبھٹونے بلھے شاہ کے لوکائی کے لئے پیغام ’’گُلی، جُلی ، کُلی کو اپنا نعرہ بنایا تھا کہ مانگ ر ہا ہے ہر انسان روٹی ،کپڑا ور مکان ۔ لہٰذ شہیدبھٹو کے مطابق مل اور فیکٹری میں کام کرنے والا مزدور کیسے منافع میں حصہ دار نہ تھا۔ کسان کیوں کھیت کی پیداوار کا حق دار نہ تھا یعنی محنت کش کو کیسے اس کی محنت کے صلہ سے محروم رکھا جا سکتا تھا ۔ شہیدبھٹونے اسی معاشی نا انصافی کے خاتمہ کے لئے سرمایہ دار سے ملیں لے کر حکومتی سرپرستی میں مزدوروں کو حصہ دار بنایا اور جاگیر داروں سے جاگیریں لے کر دہقانوں کو ان کا حق دیا۔ لاکھوں کی تعداد میںلوگوں کو روزگار فراہم کرکے انہیں بنیادی ضرورتیں پورا کرنے کے قابل بنایا۔ ملک میں ایسے معاشی مساوات کی بنیاد رکھی کہ کمی کا بیٹا بھی پاسپورٹ کا حق دار ٹھہرا اوربیرون ملک روزگار کی بدولت یوں کایا پلٹی کہ اس کا کچا مکان پہلے سے موجود پکی حویلی سے زیادہ مضبوط اور بلند ہوگیا۔ 
اس طرح ملک میں معاشی اور سماجی مساوات کا آغاز ہوا اور ایک بڑا درمیانہ طبقہ وجود میں آنے لگا ۔ یوں محروم طبقات نے سر اٹھا کر اپنا حق مانگنا سیکھ لیا ۔
شہیدبھٹو نے فرسودہ نظام کے ساتھ ساتھ تعفن زدہ روایات کا بھی خاتمہ کیا۔ وہ طبقات جو قوم کے خلاف کئے گئے اپنے جرائم سے بخوبی واقف تھے اور ان جماعتوں کی نظریں ہمیشہ ماضی پر لگی تھیں۔ جبکہ شہیدبھٹو درخشاں مستقبل کی بات کر رہے تھے تاکہ عوام کو پستیوں سے نکال کر عظیم لوگوں کے شایان شان زندگی گزارنے کا راستہ دکھایا جائے۔ شہیدبھٹو کے نزدیک قوم کو درپیش حقیقی مسائل سیاسی اور معاشی تھے نہ کہ مذہبی کیونکہ استحصال کرنے والے اور استحصال زدہ دونوں ہی مسلمان تھے۔ لہٰذا شہیدبھٹو نے ان رجعت پسند قوتوں جو اپنے آپ کو مذہب کا ٹھیکیدار سمجھتی تھیں‘کی اجارہ داری ختم کی۔ بھٹو کی قیادت میں یہ عوامی انقلاب عوام کے بیدار ہونے کاثبوت تھا لہٰذا ردِانقلاب کی یہ تمام قوتیں یکجا ہو گئیں اور کبھی بھٹو کوکا فرقراردیا جاتا ہے کبھی غدار اورآخرکار اس کو قاتل ٹھہرایا جاتا ہے لیکن تاریخ ثابت کرتی ہے کہ شہیدبھٹوکوعالم اسلام کی قیادت کا اعزازحاصل ہوتا ہے ۔ غدار کی بجائے ۔ تاریخ شہیدبھٹو کوآئین دینے پر اندرونی اور ایٹم بم دینے پر بیرونی خطرات سے ملک بچانے پر وطن پرست قرار دیتی ہے ۔ قتل کا مجرم قرار دئیے جانے کے باوجود تاریخ اس فیصلہ کو عدالتی قتل قرار دیتی ہے۔اور تاریخ کی عدالت میں شہیدبھٹو سرخرو قرارپاتا ہے۔کیونکہ آپ کسی فرد کو قتل کر سکتے ہیں مگر اس کے نظریہ کو نہیں۔ عوام کے لئے بھٹو کے انمول کارناموں نے اسے امر بنا دیا ہے۔
 ’’ خلق خدا میرے بارے میں گیت گا ئے گی اور میں اس کی کہانیوں کا جاوداں حصہ بن جاوں گا‘‘ 
٭…٭…٭

مزیدخبریں