کتاب انسان دوست اور تنہائی کا ساتھی کہلاتی تھی ،وہ وقت بھی تھا جب کتاب کے مطالعے کے لئے بڑے اہتمام کے ساتھ ماحول بنایا جاتا تھا ، کتاب پڑھنے والا معتبر مانا جاتا تھا ، ادبی حضرات اپنے گھروں میں کتب کے لئے ایک الماری مخصوص کیا کرتے تھے ، جب کہ محلے ، گائوںاور شہروں میں پبلک لائبریریاں بھی ہوا کرتی تھیں ،دورِ حاضر میں کتاب کو سائنس نے نگل لیا ،الیکڑانک میڈ یا اور موبائل نے کتاب کو ہاتھوں سے چھین لیا ہے ، ہمارے لوگوں کے پاس کتاب پڑھنے کا وقت نہیں لیکن شب و روز انٹرنیٹ ، واٹس ایپ پر چیٹنگ کے علاوہ فضول ایس ایم ایس کرنے کا وقت ہے یہی وجہ ہے کہ کتاب کے مطالعہ کی عادت ختم ہو گئی ہے۔
یوں تو زوال ہمارے معاشرے کی روایات بن گیا ہے ، لیکن بداخلاقی پستی ہمارے معاشرے کا لمحۂ فکریہ ہے ، جدید سائنس اور ( بار بی کیو )کباب کلچر دراصل کتاب کلچر کے زوال کا سبب ہیں لائبریریاں بند کی جارہی ہیں ، منفی اور مذموم پروپیگنڈے کے ذریعے کتاب کلچر کو ختم کیا جا رہا ہے کہ ’’اب کتاب کون پڑھتا ہے ‘‘ لاہور آئی جی سیکرٹریٹ میں لائبریری ختم کر کے وہاں مہمان خانہ بنا دیاگیا ہے ، پنجاب گورنر ہائوس کی لائبریری میں اربوں کی نایاب کتب ہیں جو کہ بند ہونے کی وجہ سے دیمک کی خوراک بن رہی ہیں ، سائنس کی ترقی اور کباب کے جنون میں کتاب بیچاری کو دیمک ہی کھائے گی۔
امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں اوسطاًایک سال میں ایک شخص سات کتابیں پڑھتا ہے، جب کہ امریکہ میں سالانہ ایک فرد چار کتابیں پڑھتا ہے، پاکستان میں ادبی کتابیں بہت کم اور محدود تعداد میں شائع ہوتی ہیں ، لہذا انہیں پڑھنے والے بھی کم اور محدود افراد ہی ہیں ، ادب کی دنیا میں ترکی ایک ایسا ملک ہے ، جہاں عالمی ادب کی تقریباً ہر کتاب کا ترک زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے جس سے وہاں کتاب کلچر پروان چڑھا ، اس کے بر عکس ہمارے ملک پاکستان میں مصنفین عربی، فارسی یا اردو میں کتاب لکھیں انہیں ترجمہ کرنا تو درکنار پڑھنے والا کوئی نہیں ،حتیٰ کہ نوجوان نسل مادری زبان نہیں اردو بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، اور لکھی اردو کو سمجھنے سے قاصرہیں، مصنفین کی حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی بھی نہ ہونا ایک لمحہء فکریہ ہے۔
ترکی کی وازارتِ اعداد وشمار برائے اشاعت کے مطابق ترکی میں 2018 ء میں 6ہزار 8 سوکتابیں آئی ایس بی این نمبرز کے ساتھ شائع ہوئیں ، جس میں چودہ فیصد صرف بچوں کے لئے شائع ہوئیں ، 48 فیصد اکیڈمک اور تعلیمی مقاصد کے لئے شائع ہوئیں ، عوام کے علم میں لانے کے غرض سے یہ سارے اعداد وشمار پابندی سے جمع کئے جاتے ہیں ، ترکی میں اشاعت کے لحاظ سے 2019 ء میں کل شائع شدہ کتب کی تعداد 85 کروڑ ہے ، جو کہ ترکی کی آبادی کے اعتبار سے ہر شہری پر سات کتابیں شائع ہوئیں، کتب کی اشاعت میں ایران کا شمار مسلم ممالک کی صف میں ٹاپ ٹین میں ہوتا ہے ، جب کہ پاکستان 55 ویں نمبر پر ، سعودی عرب 54 ویں نمبر پر مصر چالیسویں نمبر پر اور ہندوستان ساتویں نمبر پر ہے۔
دسمبر کے آخری ہفتے میں بھارت کے سرکاری ادارے قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان نے نو روزہ کتاب میلے کا کا انعقاد بھارتی صوبہ مہاشٹر کے چھوٹے سے قصبے مالیگائوں میں کیا ، جس میں تین کروڑ پاکستانی روپے سے زائد کی اردو کتابیں فروخت ہوئی ہیں ، پاکستان کی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے ادبی شہر میں سال میں تین کروڑ کی کتابیں نہیں بکتیں ،بھارت کے اس میلے میں اردو کتاب کے خرید اروں میں 60 فیصد سے زیادہ خواتین تھیں،پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کتابوں کی سیل میں انتہائی کمی ہوئی ہے اس کی بڑی وجہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے کتاب کی قیمت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ در آمد شدہ کتابوں پر 11 فیصد ٹیکس بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان پبلشرز اور بک سیلرز ایسوسی ایشن نے پانچ روزہ 16 واں سالانہ بین الاقوامی کتب میلہ کراچی میں منعقد کیا جو کہ تین جنوری کو اختتام پذیر ہوا ، پبلشرز میلے میں اسٹال کے انتہائی مہنگے کرایہ پر نالاں ہیں حکومتی سرپرستی نا ہونے کے سبب بک سیلرز معاشی مسائل کا شکار ہیں پیپر رم جو کہ دو ہزار روپے میں دستیاب تھا موجودہ حالات میں وہی پیپر نو ہزار روپے کا ہے۔
حقیقت سے پردہ پوشی کرنا کاہلوں کا شیوہ ہے آنکھیں موند لینے سے مسائل حل نہیں ہوتے ، کوئی بھی درسگاہ اور تعلیم یافتہ معاشرہ کتاب کی ضرورت سے چشم پوشی نہیں کر سکتا ،تعلیمی اداروں میں محض نصابی کتابوں سے تعلیم مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ تحقیقی ضروریات کے لئے اضافی کتابوں کی ضرورت پر توجہ نہیں دی جاتی، جن کو منظم اشاعتی اداروں اور کتب خانوں کی مدد سے ہی پورا کیا جا سکتا ہے ، پاکستان میں شرح خواندگی بہت کم ہے ، کتابیں اور کتب خانے حصولِ علم کا ذریعہ ہیں لہذا کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرانے کے لئے ملکی سطح پر سرکاری سرپرستی میں معلوماتی سیمینار اور کتب میلے منعقد کروانے کی اشد ضرورت ہے۔
٭…٭…٭