یوم حق خودارادیت ۔۔!

اصغر علی شاد

5جنوری کو ہر سال LOC کے دونوں اطراف اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں مقیم کشمیری یومِ حق خودارادیت کے طور پر مناتے ہیں اور اس موقع پر  اقوام عالم کی توجہ بھارت کی ریاستی دہشتگردی اور کشمیر پر اس کے نا جائز تسلط کی طرف دلانے کے لئے احتجاجی جلسے جلوس اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ساری دنیا آگاہ ہے کہ 5 جنوری 1949 کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ قرار داد کے ذریعے بھارت سے کہا تھا کہ وہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے حقِ خودارادیت کا موقع فراہم کرے۔اس ضمن میں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں خود بھارت لے کر گیا تھا اور اس متفقہ قرار دار کے ذریعے اس نے اقوامِ عالم سے عہد کیا تھا کہ وہ کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دے گا۔ ابتدائی برسوں میں بھارتی وزیرِ اعظم ’’جواہر لعل نہرو‘‘ اپنے اس وعدے پر کسی حد تک قائم بھی رہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ دہلی سرکار اس ضمن میں تمام وعدوں سے منحرف ہو گئی اور اس نے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ کشمیر بھارت کاایک اٹوٹ انگ ہے۔
کشمیر کے بے گناہ مگر غیور عوام نے ابتداء میں تو کئی سال اس امید میں گزارے کہ شاید بھارتی حکمران اپنے وعدوں کا پاس کرلیں اور عالمی برادری بھارت کو سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے پر مجبور کرے مگر جب انھیں کہیں انصاف نہ ملا تو انھوں نے  1988 میں بھارت سے آزادی کی نسبتاً زیادہ فعال تحریک شروع کی تو قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی کا بد ترین سلسلہ شروع کر دیا۔انتہائی محتاط اندازے کے مطابق 1989 سے لے کر 31 دسمبر 2021 تک 95948نہتے کشمیری بھارت کی سفاکی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔زیر حراست ہلاک ہونے والوں کی تعداد 7,225ہے  جبکہ دسمبر کے دوران ہی 11,246با عصمت خواتین کے ساتھ اجتماعی بے حرمتی کے واقعات پیش آئے۔ 164,078نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کو گرفتار کیا گیاجبکہ 107,857بچوں کے سر سے باپ کا سایہ چھین لیا گیا۔بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں 110,451عمارتوں اور مکانات کو مسمار کر دیا یا جلا دیا گیا۔  یہ امر بھی اہم ہے کہ یورپی یونین سمیت عالمی برادری کے کئی حلقوں نے ماضی قریب میں ایک سے زیادہ مرتبہ بھارت پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے اور اس مسئلے کا کوئی ایسا حل نکالا جائے جو تمام فریقین کے لئے قابلِ قبول ہو۔
جیسے کہ یکم جنوری 2014 کو یورپی یونین کے اس وقت کے پرنسپل ایڈوائزر برائے خارجہ امور ’’فیڈرو سرانو‘‘ نے یورپی یونین کے صدر کے حوالے سے ایک بیان میں کہا تھا کہ EU کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں پورا علم ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور EU کے وفد نے ریاست جموں کشمیر کے دورے کے دوران اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ بھارتی پولیس،فوج اور پیراملٹری فورسز انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں اور EU چاہتی ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا یہ سلسلہ فوراً روکا جائے۔EU کے مطابق بھارت کی مرکزی اور ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ سرحد کے دونوں اطراف کی سول سوسائٹی،سفارت کاروں،دانشوروں اور نو جوانوں کے ساتھ EU کا قریبی رابطہ ہے۔ان حلقوں کو چاہیے کہ وہ ان متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں جو گذشتہ برسوں کے دوران بہت متاثر ہوئے ہیں تاکہ ریاست جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔  عالمی برادری کے چند حلقوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کا موقف یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے جس میں کشمیریوں کی شمولیت بھی لازمی ہو۔اس کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج کی جانب سے مقبوضہ ریاست میں بربریت کی انتہا پیلٹ گنوں سے کشمیری نوجوانوں کو بینائی سے محروم کرنے کا غیر انسانی سلسلہ فی الفور بند کیا جائے۔غیر جانبدار مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ یومِ حقِ خودارادیت پر ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر کے تمام انصاف پسند حلقے تنازعہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرانے میں اپنا ٹھوس کردار ادا کریں تا کہ اس دیرینہ تنازے کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیاجا سکے۔ ویسے بھی قانون فطرت یہی ہے کہ ’ہر سیاہی کے بطن سے با لا آخر صبح کے اجالے طلوع ہو کر رہتے ہیں گویا’کس کے روکے رکا ہے سویرا

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...