شا ہین کوثر ڈار
جو قومیں اپنے ماضی کی غلطیوں کی اصلاح میں دلیری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔وہ تاریخ میں ہمیشہ سرخرو ہوتی ہیں۔پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بننے والے متنازعہ قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران کسی بھی مرحلے پر انصاف کے کسی بھی قسم کے تقاضوں کو مد نظر رکھا گیا؟اس سوال کا جواب ہر شخص نفی میں دیتا ہے۔کیونکہ بھٹو کی نواب محمد احمد خان سے کوئی عداوت نہیں تھی۔دنیا بھر کے مروجہ عدالتی طریقہ کار سے ہٹ کر بھٹو مرحوم مقدمے کی سماعت ٹرائل کورٹ کی بجائے ہائی کورٹ سے شروع ہوئی۔جس کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کا بھٹو سے تعصب اور ذاتی عناد سب پر روز روشن کی طرح عیاں تھا۔ان عدالتوں سے انصاف کی توقع اس دن ختم ہوگئی تھی جس دن چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یعقوب علی نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق کے نام سمن جاری کئے تو انہیں نصف گھنٹے کے اند اند فارغ کر دیا گیا بلکہ ان کی جگہ جسٹس انوار الحق کو حلف بھی دلو ا دیا گیا۔یہ سارے واقعات اس امر کے شاہد ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ انصاف نہ کیا گیا ۔
بھٹو شہید اپنے قاتل کو اس کی اخلاقی موت کی پستی میں چھوڑ کر خود صلیب پر جھول کرامر ہوگیا ۔جنرل ضیاء الحق نے طاغوتی ہتھکنڈوں سے ملک کی اعلی عدالتوں کو جس بے دردی سے روندا ان کا تقدس پامال کیا۔اور من مانے فیصلے حاصل کرنے کے لئے قصر مذلت میں اترنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اس نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا فیصلہ کرکے ہمارے ملک کی عدالتی تاریخ کے چہرے پر زوردار طمانچہ مارا۔اس ننگ انصاف بنچ کے ایک زندہ رکن نسیم حسن شاہ نے بعد میں خود پوری قوم کو اپنی مرتب کردہ یاد داشتوں کے ذریعے اس کے شواہددکھائے۔اور ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔اس سے پہلے بھی تمام منصف مزاج ماہرین قانون اس سزا کو عدالتی قتل قرار دے چکے ہیں۔جسٹس صفدر شاہ مرحوم نے اختلاف رائے کی سزا پائی۔اور جلا وطنی میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔اس طرح سپریم کورٹ میں بنچ کے ارکان کی تعداد پوری نہ ہونے دی گئی۔اورعجلت میں من پسند فیصلہ حاصل کیا گیا۔اس وجہ سے دنیا بھر کے منصف مزاج انسانوں کے مطابق پاکستان کی اعلی عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو جیسی عظیم شخصیت کو انصاف نہیں دیا گیاجو ان کا حق تھا۔اس حوالے سے 4اپریل1979ء کا دن ہماری تاریخ میں انصاف کے قتل ،روشنی اور جمہوریت کے قتل اور ظلم و جبر کے مقابلے میں حق و صداقت کی علامت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اس تاریخی نا انصافی اور عدالتی قتل کے حوالہ سے پاکستان پیپلز پارٹی ہر دور میں انصاف کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔دنیا کی کئی قوموں کی تاریخ میں ایسے واقعات موجود ہیں۔کہ اعلی عدالتوں کے نام پر لگائے گئے سٹیج سے حق پرست انسانوں کو صلیب پر لٹکانے کی سزا دینے کے برسوں بعد انہیں نئے ادوار کی آزاد عدالتوں اور با ضمیر ججوں نے بعد از مرگ بھی بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا۔ایسی عدالتوں نے متنازعہ فیصلوں کو درست کر کے ان قوموں نے بین الاقوامی برادری سے زبردست خراج تحسین وصول کیا۔اور دنیا بھر کے مہذب انسانوں نے اس روایت کی پذیرائی کی۔ان قوموں نے اپنی سیاسی و عدالتی غلطیوں کو درست کر کے تاریخ سے بھی خراج پایا۔اگر ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کر کے ہم اپنی سیاسی و عدالتی غلطی کی اصلاح کر سکتے ہیں تو ہمیں مصلحت پسندی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔کیونکہ ایسا کر کے ہم اپنی سیاسی و عدالتی تاریخ کے ریکارڈ کو درست کرلیںگے۔آج بھی اگر آزاد عدلیہ کے ذریعے انہیں انصاف فراہم کر دیا جاتا ہے تو آئندہ ہم مہذب قوموںکی صف میں فخر سے سر بلند کر پائیں گے ۔بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خاندان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ ہونا چاہیے۔کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو صرف ایک منتخب وزیراعظم ہی نہیں بلکہ ایک نئے پاکستان کی تعمیر کا بانی تھا۔ جس نے نوے ہزار قیدیوں کو رہائی دلا کر،ایٹم بم کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے علاوہ جمعہ کی چھٹی ،برسوں پرانے قادیانیوں کے مسئلے اور اسٹیل ملز کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔اور سب سے بڑھ کر اس مملکت خداداد کو ایک مکمل متفقہ آئین دینا بھٹو ہی کا کارنامہ شمار ہوتا رہے گا۔