نذیر ڈھوکی
قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کا جنم برصغیر کے ایک نواب خاندان میں ہوا تھا بھٹو خاندان کا سیاسی پس منظر بھی باوقار تھا، روایت ہے پیدائش کے بعد جب سر شاہنواز خان بھٹو کے جگر گوشہ نے آنکھیں نہیں کھولیں تو انہوں نے اپنے منیجر کو قلندر شہباز کے متولی کے پاس بھیجا اس وقت کے متولی بھی درویش اور اللہ کے نیک بندے ہوا کرتے تھے ،قلندر شہباز کے متولی نے سر شاہنواز بھٹو کے منیجر کو ایک آدھا دن درگاہ پر ٹھہرنے کی ہدایت کی تیسرے دن حضرت قلندر شہباز کے متولی نے منیجر کو اس نصیحت کے ساتھ رخصت کیا کہ شاہنواز خان کو کہنا کہ آپ کا بچہ غیر معمولی بچہ ہے اس کی تعلیم اور تربیت پر خاص دھیان دیں ، بھٹو اسٹیٹ کے ہاریوں کا کہنا تھا کہ بچپن میں جب بھی بھٹو صاحب زمینوں پر آتے وہاں ہاریوں کے ہاتھ دیکھتے تو بہت دکھی ہوجاتے اور کہتے یہ قدرت کا قانون نہیں ہے آپ ہمیشہ غریب رہیں میں ایسے نظام کو ٹھوکر مار کر ختم کردوں گا، یہ بھی روایت تاریخ کا حصہ ہے سر شاہنواز خان بھٹو بمبئی میں وزیر تھے ایک دن برطانوی راج کے گورنر لارڈ برابورن نے سر شاہنواز خان بھٹو کو کھانے پر مدعو کیا ، سر شاہنواز خان اپنے تین صاحبزادوں سکندر علی بھٹو، امداد علی بھٹو ،اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ گورنر ہاوس پہنچے ، سکندر علی خان بھٹو بڑے صاحبزادے تھے انتہائی خوبصورت اور خوش لباس تھے گورنر لارڈ برابورن نے سکندر علی بھٹو سے مصافحہ کرتے ہوئے بولے شاہنواز خان آپ کا بیٹا بہت خوبصورت ہے تو سکندر علی بھٹو جوابی کلمات میں کہا ہمارے گورنر صاحب بھی خوبصورت ہیں اس دوران آٹھ سال کی عمر والے ذوالفقار علی بھٹو بول
پڑے کہنے لگے گورنر اس لئے خوبصورت ہیں کیونکہ انہوں نے ہمارے خوبصورت ملک کا خون چوسا ہے ،کہا جاتا ہے کہ اس وقت کچھ لمحوں کیلئے گورنر لارڈ برابورن سکتے میں آگئے اور آٹھ سالکے ذوالفقار علی بھٹو کو غور سے دیکھنے کے بولے شاہنواز خان آپ کا یہ بیٹا شاعر اور انقلابی بنے گا ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھٹو شہید کے کلاس فیلو پیلو مودی جس کا تعلق بھارت سے ہے کا کہنا ہے کہ بھٹو صاحب وطن پرست اورآزادی پسند تھے اور دنیا کے قبضہ گیروں سے نفرت کرتے ،وہ قائد اعظم کے پرستار تھے ، پیلو مودی کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب زیادہ وقت لائبریری میں تاریخ کے کتاب پڑھنے میں گزاردیتے یہاں تک کہ تاریخ پر انہیں عبور حاصل ہو گیا تھا ۔خاص طورپر غلامی کی زندگی گزارنے والی قوموں کی بات کرتے جب ہم دوست انہیں چھیڑتے تو کہتے تمہیں اندازہ نہیں غلامی کی زندگی کتنی توہین آمیز بدترین ہوتی ہے ، میں غلامی کی زندگی گزارنے والوں کی بجائے بغاوت کرنے والوں کی آزادی کی تحریکوں کی حمایت کا آواز بنوں گا ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں ہے کہ قائد عوام بھٹو جنرل ایوب خان کے کابینہ کے وزیر رہے کیونکہ اس وقت نہ جمہوریت تھی نہ کوئی آئین مگر ہم کیوں بھول جاتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کو ٹھوکر مار کر اقتدار سے باہر آئے تھے، یہ بھٹو صاحب کی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ ملک کے شہریوں کو آزادانہ ووٹ کے استعمال کا حق ملا ۔حقیقت یہ ہے کہ بھٹو شہید نے تین سال کے اندر عوام میں جو سیاسی شعور پیدا کیا وہ ایک انقلابی تبدیلی تھی ،استحصالی نظام سے آزادی کا آغاز تھا ملک کا ہر شخص بھٹو بن گیا ، کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کے نواب اکبر بگتی کی محفل میں ایک معمولی شہری نے جب ان کی رائے سے اختلاف کیا تو نواب بگٹی نے کہا تمہیں یہ جرأت بھٹو نے دی ہے یہ آسمانی معجزہ ہے کہ زندہ انسانوں کے خاموش قبرستان میں کوئی معمولی بندہ مجھے چیلنج کر رہا ہے ۔ ماضی کے صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے درویش سیاستدان اجمل خٹک کا کہنا تھا بھٹو صاحب کا کمال ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفین کوبھی بولنے کیلئے زبان دی۔
جولائی 1977 کے بعدپھرایک وقت ایسا بھی آیا جب اسی سیاسی جدو جہد میں بھٹو کی آواز کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دینے کی ناکام کوشش بھی کی گئی۔ پاکستان کی تا ریخ کے بد تر ین آمر جنرل ضیاء الحق نے ایک منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مارکر مملکت خداداد کو مہیب تاریکیوں کے گہرے سایوں میں دھکیل دیا ۔ 4اپریل 1979ء کا دن سیا ہ ترین دن تھا جب استعماری قوتوں کے گماشتوں نے ایک متنازعہ فیصلے پر عمل کرتے ہوئے ایشیاء کے ایک نابغہ روزگار اور عبقری سیاستدان کو اپنے تئیں موت کی تاریک وادیوں میں اتاردیا۔ضیاء الحق اور اس کی ٹیم یہ سمجھ بیٹھے کہ ان کا اقتدار دائمی ہے اور ذوالفقار علی بھٹو صلیب پر لٹک کر سب کی نظروں سے اوجھل ہوچکے ہیںکیونکہ یہ سب اس عظیم ہستی کو گڑھی خدا بخش کے گنج شہیداں میں خود منوں مٹی تلے دفن کر آئے ۔آج جب بھٹو کے عدالتی قتل کو 43 سال ہو چکے ہیں مگران کا مزار نا صرف روشن ہے بلکہ دردمندوں کیلئے صاحب مراد ہے ، گڑھی خدا بخش کا قبرستان دنیا کا واحد قبرستان ہے جہاں انسان آنکھوں میں آنسوؤں کا خراج لیکر جاتے ہیں۔
تاریخ کے آمروں کو گمان تھا کہ بھٹو مر چکا ہے۔لیکن ان نادانوں کی تاریخ پر نظر نہ تھی،یہ اپنے دین سے واقف نہ تھے۔جس میں حکم الہی ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں۔آج یہ سچ وہ حقیقت ہے جو ضیاء الحق کی ٹیم کے تمام زندہ کرداروںکے سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ایسے مقتول تھے،جس نے اپنے قاتل کا سر خود قلم کر دیا۔اورآج وہ شاعر اور انقلابی اپنی ابدی آرام گاہ میں آسودہ خاک ہے ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛