امریکا نے پاکستان میں صنفی مساوات اور جمہوریت کے فروغ کے لیے دو سو ملین ڈالرز کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ اس نوعیت کی امداد حکومت کو نہیں دی جاتی بلکہ یہ ان غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کے لیے ہوتی ہے جو امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ امداد پہلی بار نہیں دی جارہی، یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے۔ دسمبر 2020ءمیں صنفی امتیاز ختم کرنے کے لیے 10 ملین اور جمہوریت کے قیام کے لیے 15 ملین ڈالر دیے گئے تھے۔ اس قسم کی مدات سے متعلق خطیر رقوم جب پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں بھیجنے سے پہلے اچھی طرح چھان بین کر کے منصوبہ بندی کی جاتی ہے کہ کس تنظیم یا ادارے کو کتنی رقم دی جائے گی اور اس سے کون سا کام لیا جائے گا۔ پاکستان میں ایسے افراد، تنظیمیں اور ادارے قابلِ ذکر تعداد میں موجود ہیں جو خود کو اس قسم کی رقوم کا اہل ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں اور وہ معاشرے کے اجتماعی مزاج سے مختلف اقدامات کر کے یہ بتاتے بھی رہتے ہیں کہ ہم یہ سب کچھ کیوں اور کس کے لیے کررہے ہیں۔
ویسے پاکستان میں ایسی امداد صرف امریکا ہی نہیں بھیجتا بلکہ اور بھی بہت سے ممالک اپنے نظریات کے فروغ کے لیے ایسی فیاضی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں، اسی لیے ہمارے ملک میں دائیں اور بائیں بازو سے جڑے ہوئے لوگوں کی موجیں مسلسل لگی رہتی ہیں کیونکہ ملک کے حالات کچھ بھی ہوں، ان پر ہونے والی عنایات کا سلسلہ کبھی نہیں تھمتا۔ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے یا بالفاظِ دیگر مذہب کے مخصوص تعبیر کی تشہیر کے لیے بھی بہت سی امداد آئی اور جن کو یہ امداد ملی انھوں نے اسے وصول کرنے کا حق بھی خوب ادا کیا۔ اسی کے نتیجے میں معاشرے میں نظریاتی تفریق اس حد تک بڑھ گئی کہ لوگ شدت پسندی کی طرف مائل ہوگئے اور آج وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر چلنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے۔ کیا ملک کو اس سب سے کوئی فائدہ پہنچا، اس سوال سے نہ تو امداد دینے والوں کا کوئی تعلق ہے اور نہ ہی لینے والے اس سے کوئی سروکار رکھتے ہیں۔ فریقین اپنی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رکھتے ہیں کہ دکانیں کھلی رہیں اور مال بکتا رہے۔
مال تو مغرب کا بھی اس ملک میں بکتا ہے اور اب تو بہت زیادہ بکتا ہے کیونکہ سمارٹ فونز کی بھرمار اور انٹرنیٹ تک رسائی کے سلسلے میں جو سہولتیں پیدا کی گئی ہیں انھوں نے نئی نسل کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ بھی ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں مذہب پسندوں کی غالب اکثریت فکری جمود اور تنگ نظری کا شکار رہی ہے، اور آج تک ہے، جس کی وجہ سے مغرب کو اپنے نظریات کے فروغ کے لیے زیادہ مواقع میسر آئے۔ اب ہمارے اردگرد جو کچھ جدت پسندی کے نام پر ہورہا ہے وہ ہو تو مغرب کے ایما پر رہا ہے لیکن اس کے لیے زمین ہموار کرنے میں مذہب پسندوں کے سخت گیر رویوں نے بھی خوب حصہ ڈالا ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے ہاں نسلِ نو کو اہمیت دینے کا رواج بہت ہی کم رہا ہے جس کی وجہ سے احساسِ بغاوت مسلسل ایک لاوے کی طرح اندر ہی اندر پکتا رہا ہے اور اب جو کچھ سوشل میڈیا کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے اس کی وجہ سے آتش فشاں پھٹ رہے ہیں اور ان سے نکلنے والا لاوا ہمارے گھروں، گلیوں اور بازاروں میں بہہ رہا ہے۔
اس وقت پاکستان میں بارہ تیرہ سال کی عمر سے لے کر چالیس سال تک کے افراد آبادی کے تناسب کے اعتبار سے ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ ہیں، اور ان کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو مغرب کے اشاروں پر کام کرنے والے افراد، تنظیموں اور اداروں کے پھیلائے ہوئے دامِ ہم رنگِ زمیں میں اس طرح پھنس چکی ہے کہ وہ چاہ کر بھی اس سے نکل نہیں سکتے۔ اب دو سو ملین امریکی ڈالروں کی جو برسات ہونے کو ہے وہ ظاہر ہے اپنے ساتھ کچھ نئے تقاضے بھی لے کر آئے گی۔ ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جو کچھ کیا جائے گا اس سے معاشرے میں مزید تبدیلیاں رونما ہوں گی جو اقدار و روایات کے ڈھانچوں کو مزید نقصان پہنچائیں گی۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس اس زہر کے لیے کوئی تریاق موجود ہے؟ اور اگر تریاق ہے تو کیا ہم اسے استعمال کرنے کے طریقے سے واقف ہیں؟ نیز، کیا ہم اس تریاق کو استعمال کرنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں؟ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ محض جذباتی نعرے اور کھوکھلے بیانات اس زہر کا تریاق ہرگز نہیں ہیں۔
انسان کے مزاج یا رویے میں تبدیلی ایک دو روز میں نہیں آتی اور نہ ہی ذہن سازی کا کام جلد بازی میں کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے کاموں کے لیے ایک لمبا عرصہ، منصوبہ بندی اور صبر و تحمل درکار ہوتا ہے۔ پاکستان میں آج ہمارے اردگرد جو کچھ ہورہا ہے، یہ سب کچھ بھی ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ کئی دہائیاں لگا کر اس کے لیے راستہ بنایا گیا۔ اگر ہم واقعی اس سب سے بیزار ہیں اور اس کا علاج کرنا چاہتے ہیں تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم اپنی نئی نسلوں کو کیا تعلیم دے رہے ہیں اور انھیں کیسا ماحول فراہم کیا جارہا ہے؟ ہم چاہے نہ مانیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے زیادہ تر گھروں میں آج بچوں کو ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کی طرف سے جو تعلیم دی جارہی ہے اس کا بہت بڑا حصہ صرف اور صرف مادہ پرستی اور ذاتی منفعت تک محدود ہے۔ اندریں حالات، معاشرے میں کسی مثبت تبدیلی کی خواہش دیوانے کا خواب ہی کہلا سکتی ہے۔