وفاقی حکومت نے توانائی بچت پروگرام کے تحت ملک بھر میں شادی ہالز رات دس اور مارکیٹیں ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے کا اعلان کر د یا ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سرکاری اداروں میں بجلی کے استعمال میں تیس فیصد تک کمی سے سالانہ باسٹھ ارب روپے کی بچت ہوگی۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ یکم جولائی کے بعد بجلی سے چلنے والے پنکھے تیار نہیں کیے جائیں گے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ہم گرمیوں میں انتیس ہزار میگا واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں۔ سترہ ہزار میگاواٹ بجلی سردیوں کی نسبت زیادہ استعمال کرتے ہیں ، سردیوں میں ہم بارہ ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کرتے ہیں، گرمی سے بچنے کے لیے ہم اٹھارہ ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کرتے ہیں جس میں سے صرف پنکھے بارہ ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کرتے ہیں۔ آئندہ ماہ سے فلیمنٹ والے بلب تیار نہیں ہوں گے اس پابندی سے بائیس ارب روپے کی بچت ہو گی۔ پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کے رات ساڑھے آٹھ بجے دکانیں بند کرنے کے فیصلے کومسترد کر دیا۔ پنجاب کے سینیئر وزیرمیاں اسلم اقبال نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کے فیصلے پنجاب حکومت کو قبول نہیں، پنجاب حکومت دکانیں رات آٹھ بجے بند کرنے کافیصلہ خود کرے گی۔ ایسے فیصلوں سے عوام پر بوجھ پڑے گا، بیروزگاری بڑھے گی۔ مرکزی تنظیم تاجران پاکستان نے بھی وفاقی حکومت کا رات آٹھ بجے دکانیں اور دس بجے شادی ہالز بند کرنے کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔ صدر مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کا کہنا ہے کہ بدترین معاشی صورتحال میں کاروبار کو بند کرنا کسی صورت ممکن نہیں، حکومت کے ان نمائشی اقدامات سے توانائی کی بچت ممکن نہیں۔۔
جہاں تک تعلق اس چیز کا ہے کہ مارکیٹیں رات رات آٹھ بجے ساڑھے آٹھ بجے یا نو بجے بند ہونی چاہئیں۔ آہی اس میں میں تو کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ ایسے فیصلوں پر ملک بھر میں سختی سے عمل درآمد ہونا چاہیے۔ ایک تو ہم کمزور معیشت کو رو رہے ہیں دوسرا ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں اور تیسرا یہ کہ سب سے زیادہ کمی چیز کی ہے وہ عقل ہے، ہمیں بحیثیت قوم آج تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ دنیا نے توانائی کے بحران پر کیسے قابو پایا ہے اور دنیا توانائی کے قدرتی ذرائع سے کیسے فائدہ اٹھاتی ہے اور ہم کس بیرحمی سے توانائی کے متبادل ذرائع پر پیسہ لٹاتے ہیں۔ توانائی کے قدرتی ذرائع کو بے رحمانہ طریقے سے ضائع کرتے ہیں۔ پنجاب کے ایک سینئر وزیر نے حکومت کے اس فیصلے کے خلاف جو دلیل دی ہے اس پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر مارکٹیں رات کو جلدی بند ہو جاتی ہیں تو اس میں کونسی ایسی قباحت ہے کہ یہ ممکن نہیں نہیں ہم کیوں سورج کی روشنی کو استعمال نہیں کرتے اور کیوں ہم صبح دکانیں دو بجے کھولتے ہیں کیوں ہم رات کو دو دو بجے تک بڑے بڑے شاپنگ مالز اور اس طرح کی دیگر کاروباری سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں ہیں اگر کہیں سے کچھ امپورٹ کرنا ہی ہے تو خدا کے واسطے عقل امپورٹ کر کے لوگوں میں بانٹ دیں۔
حکومت کو کسی بھی صورت مارکیٹیں جلد بند کرنے کے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے اور اس ضمن میں اگر سختی کرنا پڑے تو اس سے بھی ہچکچانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ لوگ جو پنجاب میں یا دیگر صوبوں میں مارکیٹیں جلدی بند کرنے کی مخالفت کرتے ہیں ان لوگوں کے ناموں کو ذہن میں رکھنا چاہیے یہ اس ملک کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
انجمن تاجران اور ملک بھر کی تمام تاجر تنظیموں کو کو یہ دیکھنا چاہیے کہ ملک کو کس چیز کی ضرورت ہے ہے اگر دفاتر صبح آٹھ بجے لگتے ہیں سکول صبح جلدی جا سکتا ہے کالجز اور یونیورسٹیز کے تمام کلاسز صبح جلدی شروع ہو سکتی ہیں کہ زندگی کا ہر کام صبح فجر کے فجر یا اس کے بعد یا اس کے کچھ دیر بعد شروع ہو سکتا ہے تو یہ کاروباری سرگرمیاں کیوں صبح دس بجے نو بجے 11 بجے شروع نہیں ہو سکتی ہیں حقیقت پسندی سے کام نے بنا کی دنیا سے نکلے ملک کی ضرورت کا خیال کریں اور اپنے ملک کے بہتر مستقبل کے لیے لیے توانائی کی بچت اور وسائل ایل کی حفاظت اور وسائل میں اضافہ کی حکمت عملی کی طرف جائیں
بدقسمتی سے گذشتہ چند برسوں میں اور بالخصوص گزشتہ چار برس میں ملک میں پاور سیکٹر میں جو کچھ ہوا ہے آج اس وجہ سے پاکستان کے امپورٹ بل میں بے پناہ اضافہ ہوا بے۔اگر یہ صورت حال برقرار رہی ہم نے سخت اور بہتر فیصلہ نہ کیے، اپنا طرز زندگی تبدیل نہ کیا تو پھر ہمیں اس سے بھی زیادہ مشکل حالات سے گزرنا پڑے گا۔ یہ وہ آفت یا وہ مشکل ہوگی جیسے ہم خود جا کر گلے لگا رہے ہوں گے۔ دنیا بھر میں کاروباری سرگرمیاں دن کے وقت میں ہوتی ہیں۔ ہم پوری دنیا سے الگ ہیں کہ ہم رات کو دو بجے تک دکانیں کھول کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس لیے حکومت جہاں پر یہ فیصلے کر رہی ہے وہیں اس کے ساتھ ساتھ ان وزارتوں کا نظام بھی بہتر انداز میں چلانے کی ضرورت ہے۔ پاور سیکٹر سے متعلق تمام وزارتوں میں اس وقت جو حالات ہیں اور حکومت جس انداز میں وزارتوں کو چلا رہی ہے وہ باعث شرم ہے۔ جس طرح سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں توانائی سے متعلقہ وزارتوں کو چلایا گیا اس نے بھی پاکستان کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ہم اپنا امپورٹ بل کم نہیں کریں گے، اسی طرح سے شاہ خرچیوں میں لگے رہیں گے اور حکومت اسی طرح ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرے گی تو یہ جو حالیہ اقدامات ہیں ان سے کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوگا اگر بجلی بچانی ہے توانائی کے بحران پر قابو پانا ہے تو یہ فیصلے کرنے کے ساتھ ساتھ وزارتوں کو بھی مناسب بلکہ بہت بہتر انداز میں چلانے کی ضرورت ہے توانائی کے شدید بحران کو دیکھتے ہوئے اس کی وزارتوں کو دیگر وزارتوں کے لئے ماڈل، بننا چاہیے مثالی بننا چاہیے لیکن بدقسمتی سے زیادہ وقت باتوں پر ضائع ہوتا ہے۔ کاش کہ ہم قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کریں۔ قومی مسائل حل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو سیاسی اختلافات کو بھلا کر آگے بڑھنا ہو گا۔