ابھی ان کے آنے کی خبر گرم نہیں ہے، گرم کیا ٹھنڈی بھی نہیں ہے لیکن وہ خبر آ ئی ہے جو کافی مہینوں سے زیرِ انتظار تھی کہ محترمہ مریم نواز صاحبہ کو مسلم لیگ کی سینئر نائب صدر بنا دیا گیا ہے اور یہ کہ پارٹی کو وہی چلائیں گی۔
شاید اتنا کافی ہو لیکن مریم صاحبہ کو وطن واپسی کی راہ تو لینا ہی پڑے گی۔ وفاقی حکومت کی ’’سیاست‘‘ نے مسلم لیگ کی کشتی بھنور میں ڈال دی ہے۔ ڈوبتی نیا کو بچانے کے لیے مریم کو جلد پاکستان آنا پڑے گا اور نہ صرف یہ کہ آنا پڑے گا بلکہ پارٹی کو متحرک بنانا پڑے گا
چھیتی بوھڑیں نی ’’طبیبہ‘‘ نئیں تے میں مر گئی آں
طبیبہ یعنی لیڈی ڈاکٹر۔ مسلم لیگ ن جو کل تک ملک کی سب سے بڑی پارٹی تھی، انکل جی کی ’’محنت‘‘ کا ثمر ہے کہ وہ آج کہیں نظر ہی نہیں آ رہی۔ تین صوبوں میں تو وہ پہلے ہی نہیں تھی، اب پنجاب سے بھی ’’لاپتہ‘‘ ہے۔ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی جھنڈے گاڑنے کو ہے۔ محترم نواز شریف صاحب کا تو لندن میں دل لگ گیا ہے، ان سے تو خیر کیا کہنا لیکن اگر مریم آ جاتی ہیں، سیاست سنبھال لیتی ہیں تو کیا کہنے۔
_______
پی ٹی آئی نے کوئی وائٹ پیپر جاری کیا ہے جس میں معیشت کی تباہی کی دردناک تصویر پیش کی گئی ہے۔ معیشت کا جو حال ہے، اس کے پیشِ نظر تباہی کا لفظ بہت چھوٹا ہے، مقتدرہ اردو زبان کو نیا لفظ ایجاد کرنا ہو گا تاکہ تصویر کشی ٹھیک سے ہو سکے۔ بہرحال، پی ٹی آئی کے وائٹ پیپر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ معیشت کو اس قیامت خیز بربادی سے ہم کنار کس نے کیا۔ خان صاحب بھی اس حوالے سے بڑے دردمندانہ بیانات دے رہے ہیں، کوئی ان سے جا کہے کہ
اے ’’خانِ بزرگ‘‘ ایں ہمہ آوردہ تست
یعنی جو کچھ ہوا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے، آپ ہی کی ساڑھے تین سالہ محنت کا ثمر ہے۔ ہاں، ذمہ داری ان سہولت کاروں کی بھی ہے جو آپ کو لائے اور جن کے ’’احسانات‘‘ کے بدلے آپ ہر روز چکا رہے ہیں۔
_______
وجہ تقریب ہو یا نہ ہو، خان صاحب ہر روز قوم سے اہم ترین خطاب فرما رہے ہیں، کوئی چار پانچ سوشل میڈیا والے اپنی ہی پارٹی کے ملیں تو ان سے خطاب بھی قوم سے خطاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے کہ سب چینلز پر ’’لائیو‘‘ آتا ہے، اب تک وہ اکتہر سوبہتر اہم ترین خطابات قوم سے کر چکے ہیں اس لیے کہ بسااوقات وہ دن میں تین تین بار اہم ترین خطاب کرتے ہیں۔
یہ اہم ترین کی تکرار اس لیے ہے کہ ان کے خطاب سے چند گھنٹے قبل پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم یہ غل مچا دیتی ہے کہ اب سے اتنے گھنٹے بعد اتنے بجے خان صاحب قوم سے اہم ترین خطاب کرنے والے ہیں ۔ بظاہر کوئی معترض یہ اعتراض اٹھا سکتا ہے کہ اہم ترین خطاب تو آج ہو گا تو کیا اب تک کئے جانیوالے اکتہر سو بہتر خطابات غیر اہم ترین تھے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ سورج ہر روز طلوع ہوتا ہے اور ہرروز وہی اہم ترین ہوتا ہے۔ اس کے ہر روز طلوع ہونے سے ماضی کے ’’طلوعات‘‘ غیر اہم نہیں ہو جاتے۔ فرق البتہ اتنا ہے کہ سورج دن میں ایک بار، خان صاحب کئی بار طلوع ہوتے ہیں۔
ایک اعتراض بہت لوگ یہ بھی کرتے ہیں کہ ہر روز کا اہم ترین خطاب گزشتہ خطاب ہی کا ’’ری پلے‘‘ ہوتا ہے، کوئی نئی بات نہیں ہوتی، وہی باتیں، فلاں نے غداری کی، حقیقی آزادی، فیصلہ کن موڑ، نواز شریف نے چوری کی، کسی کو نہیں چھوڑوں گا سمیت درجنوں باتیں وہ ہر روز اسی ترتیب سے دہرا دیتے ہیں، کچھ بھی نیا نہیں ہوتا تو یہ خطاب ’’اہم ترین‘‘ کیسے ہو گیا۔ تو جواب اس اعتراض کا بھی وہی سورج والا ہے کہ سورج بھی تو ہرروز ایک جیسی دھوپ کا ’’اعادہ‘‘ یا تکرار کرتا ہے۔ ہر روز وہی پرانی والی دھوپ تو کیا اس سے دھوپ غیر اہم ہو جاتی ہے۔؟
_______
خیر، اعتراض اپنی جگہ بڑی حد تک درست ہے لیکن پوری حد تک نہیں کیونکہ خان صاحب کبھی کبھار کچھ نیا بھی پیش کرتے ہیں، جیسے کہ ایک حالیہ اہم ترین خطاب میں انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے ایک بالکل نئی بات کر دی۔ فرمایا، میری اہلیہ گھریلو خاتون ہیں، وہ مریم نواز کی طرح میک اپ نہیں کرتیں۔
علم منطق کے قاعدہ استخراج کی مدد لی جائے تو خان صاحب کے اس نئے فرمان سے پتہ چلا کہ گھریلو خواتین میک اپ نہیں کیا کرتیں۔ مزید استخراج یہ ہوا کہ جو عورتیں میک اپ کرتی ہیں، وہ گھریلو نہیں ہوتیں۔ اب کہیے!
اس سوال سے قطع نظر کہ مریم نواز کہاں سے اس بحث میں آ گئیں اور انہی کی مثال کیوں دی، کسی اور غیر گھریلو خاتون کی کیوں نہیں دی، یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ہر خاتون خانہ ’’بلقیس ایدھی مرحومہ کی طرح مطلق سادہ مزاج نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ہر گھریلو خاتون اتنی طاقت رکھتی ہے کہ ہیروں کے ہار پہنا کرے اور چھ ارب کی جیولری کو اپنی ملکیت میں لے کر اسے فروخت بھی کر سکے۔ امید ہے خان صاحب ہماری اس بات سے اتفاق کریں گے۔
_______
فی زمانہ کچھ نئے رحجانات بھی چل پڑے ہیں۔ ایسے ایسے ’’گھریلو مرد‘‘ دیکھنے میں آتے ہیں کہ بلاناغہ بوٹاکس کراتے ہیں اور سر کے بالوں کی ٹرانسپلانٹ کے لیے ایک مستقل ٹرانسپلانٹر بھاری مشاہرے پر بھی رکھ لیتے ہیں۔
چند ہفتے پہلے کی بات ہے، بوٹاکس کے عادی ایک بہتر سالہ گھریلو سیاستدان غلطی سے یا جلدی میں بنا بوٹاکس کرائے جلسہ عام میں آ گئے اور ان کے عقیدت مند انہیں دیکھ کر ڈر گئے۔ لگتا تھا کہ موصوف کی عمر ستر بہتر نہیں۔ ایک سو پانچ سال کی ہے۔ بعدازاں کسی نے اڑائی کہ بوٹاکس کرایا تو تھا لیکن اس کا انجکشن کسی جعلساز نے جعلی دے دیا۔
_______
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں جو وزیر اعظم کی زیر صدارت ہوا بہت اچھی اچھی باتیں کی گئیں۔ ایک بات یہ بھی کی گئی کہ مڈل کلاس کی پریشانیاں توجہ طلب ہیں۔
اس اچھی بات کو ’’یادش بخیر‘‘ کے ذیل میں شامل کیا جانا چاہیے۔ مڈل کلاس بہت بڑی بڑی ہستیوں کے لیے معتوب ترین رہی ہے۔ ان بڑی ہستیوں میں پرویزمشرف بھی ہیں اور ان کے ، ایک وقت میں خلیفہ خاص عمران خان بھی…
دونوں حضرات نے اس معتوب ترین کلاس کو صفحۂ ہستی پر حرف مکرّر سمجھا اور تقریباً مٹا کر رکھ دیا۔ مڈل کلاس کی اوپر کی سطح والے لوگ گریوی ٹیشن کے پہلے قانون کے تحت اپر کلاس میں چلے گئے۔ ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں تھی۔ درمیانی سطح والے لوئر مڈل کلاس میں لڑھک گئے اور لوئر مڈل کلاس والے سینٹری بیٹل فورس کی جکڑ میں آ کر مڈل کلاس کے دائرے سے باہر دائرہ افلاس میں جا گھسے۔
مڈل کلاس کے یہ دونوں طبقے یعنی مڈل آف دی مڈل اور لوئر مڈل، آہستہ آہستہ آثارِ قدیمہ بنتے جا رہے ہیں۔ ضرورت مڈل کلاس پر توجہ دینے کی نہیں، اسے ’’اینڈینجرڈ‘‘ کی لسٹ میں ڈالنے کی ہے۔ اللہ بھلا کرے!
اے خانِ بزرگ ایں ہمہ آوردہ تست
Jan 05, 2023