ذوالفقار علی بھٹو۔۔عہد  ساز شخصیت


عترت جعفری
1928ء سے 1979ء تک 51سال  جینے والے اور خود کو نئے پاکستان کے لئے قربا ن کرنے والے سابق منتخب وزیر آعظم  اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چئیرمین ذوالفقار علی بھٹو شہید کی شخصیت ،سیاسی زندگی ، اور کارناموں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اب تو کسی کو شبہ نہیں رہا ہے کہ ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ اس کے قطعی طور پر سزا وار نہیں تھے ،ان کوتختہ دار تک پہنچانے والے بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے،اور تاریخ کا  انتقام دیکھیں کہ ا ب سب نے سارا سچ اگل دیا ہے۔  وہ تمام نقاب بھی اتار دئیے جو اپنے وقت پر انتقام کی آگ میں جلنے والوں نے چہروں پر چڑھا رکھے تھے ،اب کردار محض دفن ہیں جبکہ شہید کا مزار آج بھی اس سے عقیدت اور محبت رکھنے والوں کا مرکز ہے جہاںساتھ ہی بھٹو خاندان کے دوسرے مرقد بھی ہیںجن میں سے بیشتر اس ملک میں بہتری لانے کی کوشش میں اپنی جان حب الوطنی کی نذر کر بیٹھے،ایک کے بعد  دوسریک کو ماراجاتا رہا ،مگر نہ نام مٹایا جا سکا اور نہ ان کے کارناموں کو گہنانے کی کوششیں کامیاب ہو سکی ہیں ۔
1928ء  میں لاڑکانہ میں پیدا ہونے والے  ذوالفقار علی بھٹو  اعلی تعلیم یافتہ تھے ،انسان کے اندر جوہر ہوتا ہے ،تاہم اس کی شناخت میں وقت لگتا ہے ،ذوالفقار علی بھٹو کو اوائل عمر  میں ہی انسانی اور معاشرتی مسائل کا ادارک ہو گیاتھا،اعلی تعلیم یافتہ ہونے ،مطالعہ اور تاریخ پر گہری نظر نے ان کو جلد ہی اس بات کا حساس دلادیا تھا کہ ملک کے اندر پھیلی بے چینی اور ناہمواری کو ختم کرنے کے لئے اس دور کے نظام میںسکت  باقی نہ رہی نتھی ۔وہ اگر چاہتے تو آسانی سے اس نظام کا حصہ بنے رہتے،جیسے کہ اس دور  میں سیاسی خانوادے اس گرتے نظام کی آنکھ اور کان بنے  ہوئے تھے ،اپنی امارت،اور سیاسی سوجھ بوجھ اور قومی غیرت کے احساس نے ہی ان کومعاہدہ تاشقند کے بعد میدان عمل میں نکلنے پر آمادہ کر لیا تھا،پاکستان پیپلز پارٹی دراصل اسی خاکے کی عملی مثال تھی،قیادت یہ نہیں ہے کہ ایک گروہ کو اکھٹا کر کے اس کے لئے مناصب کی پیوند کاری کر لی جائے قائد کے ذہن میں اپنے پروگرام پر عمل کا عزم اور صلاحیت ہونا چاہئے ،ذوالفقار علی بھٹونے اس وقت کے پاکستان کی نبض کو سمجھا اور محروم طبقات کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ،پی پی پی کے قیام کے لئے  جن سلوگن کا انتخاب کیا گیا وہ دراصل نعرے نہیں بلکہ ان میں ہر نعرہ شعبہ ہائے زندگی کے لئے تبدیلی کا عملی پروگرام رکھتا تھا،جیسے اسلام ہمارا دین ہے،سوشلزم ہمارے معیشت ہے ،طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں،ان پر غور کریں تو اپ کو ستر کے بعد جب بھی پی پی پی برسراقتدار آئی ہے ،ان کی جھلک اس کے پروگرامز میں نظر آتی ہے ،اگرچہ 70 سے77ء تک ان پروگرامز پربہت زیادہ جوش وجذبہ سے عمل کیا گیا ،71ء کے سانحہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ،جھوٹ کی آمیزش کے ساتھ کہانیاں بنائی اور سنائی جاتی رہیں ،تاہم اس کے لئے ایک  دلیل کافی ہے کہ بنیادی ذ مہ داری ا ن کی تھی جو اسلام آباد میں بیٹھے معاملات کو چلا رہے تھے ،''اگر ،مگر ،چونکہ اور چنانچہ ''کے ساتھ حقائق کا بیان دراصل ان کو مسخ کرنے کی کوشش  ہوتی ہے ،ملک کیوں ٹوٹا،اس  کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے اب بہت سا ریکارڈ پبلک ہو چکا ہے ،ادار بے نقاب اور عیاں ہیں ،70ء کے بعد کا پاکستان اگر آج موجود اور مضبوط ہے تو اس میں ذوالفقار علی بھٹو کی انتھک محنت،سیاسی سوجھ بوجھ کا بہت بڑا کردار ہے ،اس نئے پاکستان میں گھوم جائیں ہر  مقام پر شہید کے نشان نظر آ جائیں گے ،73ء کا آئین  ان کا بہت بڑا تحفہ تھا ،ایک ایسا آئین دیا جو اتناسخت جان ثابت  ہوا ہے کہ دو  مارشل لاء  بھی اس کا وجود نہیں مٹا سکے ،ان کا سب سے بڑا کارنامہ عوام کے ذہن میں تبدیلی  لانا اور ان کو آمادہ کرنا تھا کہ وہ اپنا حق مانگیں،آج جو مختلف طبقات  کی تنظمیں نظر آتی ہیں ،ملازمین ،مزرور ،طالبعلم ، خواتین اور ہر طبقہ حقوق  کی بات  کرتا ہے اور باہر نکلنے کی ہمت دکھاتا ہے تو  یہ بھٹو شہید کا کارنامہ ہے ،سامراجی ذہن ماضی میںبھی تھا اور آج بھی ہے ،جس کوعلم  تھاکہ جس تیزی  سے ملک کے اندر رتبدیلی  ہو رہی ہے اور یہ جاری رہی تو ان  کے ہاتھ سے سب کچھ چلا جائے گا ،77ء کے واقعات اسی  کا  شاخسانہ تھے ،مارشل  لاء لگانے والے تو تیاری کر رہے تھے اور ان کو تقویت ان لوگوں سے ملی جو ا انتخابات کے نتائج کو متنازعہ بنا کر عوام میں گئے ،یہ الگ بات ہے کہ جب تک ان کو غلطی کا احساس ہوا دیر ہو چکی تھی،اور حق چھننے والے اپنا کام کر چکے تھے ،اس کا اب سارا حساب بھی سامنے آ چکا ہے ،اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ذوالفقار علی  ملک کو ایٹمی قوت بنانے اور اس کے ساتھ اس بکھری قوم کو زبان دینے کی سزا ء  ایک  جھوٹے کیس میں دی گئی ،ایک ایسا کیس جس کو خود اس ملک کی عدلیہ بطور نظیر تسلیم نہیں کرتی ہے ،آج  کے پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کے نقش کو مٹایا نہیں جا سکتا ،ہمیں اپنے ہیروز کی قربانیوں کو یادرکھنا چاہئے اور خاص طور پر اس ملک کے منتخب ایوانوں کا فرض ہے کہ وہ شہید کے یوم ولادت اور یوم شہادت پر اپنے خصوصی سیشن منعقد کیا کریں،ہمیں اس تاثر کو ختم کرنا چاہئے کہ ہم ملک کے محسنوں کے ساتھ اچھا برتاو نہیں کرتے  ،آج اگر پی پی پی موجود ہے تویہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی قربانیوں کا ثمر ہے ،آج جبکہ پی پی پی حکومت کا حصہ ہے تو ان کے وزارء کونہیں بھولنا چاہئے کہ وہ جس قیادت کے نام پر اقتدار میں آتے ہیں وہ اپنے دروازے عوام کے کھلے رکھتے تھے ،انھیں بھی عوام کے پاس رہنا چاہئے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر دی نیشن