وفاقی کابینہ نے توانائی بچت پلان کی منظوری دیدی ہے جو فوری پاکستان بھر میں نافذ العمل ہوگا جسکے تحت ملک بھر میں تمام شادی ہال رات 10بجے اور مارکیٹیں ساڑھے 8بجے بند ہو جائینگی، کابینہ نے اس بچت پالیسی کی منظوری وزیر اعظم کی زیرصدارت اجلاس میں دی ہے جس کے تحت شادی ہال، ریستوران، مارکیٹوں کے اوقات کار کی پابندی سے 62 ارب روپے کی بچت ہوگی، توانائی کے قدرتی وسائل کا استعمال زیادہ کرنا ہوگا جبکہ وفاقی اداروں میں بجلی کا استعمال 30 فیصد کم کیا جائیگا۔پلان کے تحت گیزرز میں ایکونیکل بیفلز لازمی قرار دیدیئے ہیں جبکہ ایندھن کھپت میں کمی کیلئے بھی ای بائیکس متعارف کر ائے جائینگے، تاہم اس مقصد کے حصول کےلئے تمام شراکت داروں کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا،لارج سکیل پرائیویٹائزیشن ابھی زیر غور نہیں، گھر سے کام کرنے کی تجویز پر وزیر اعظم کی سر بر اہی میں کمیٹی حتمی سفارشات مرتب کریگی، بجلی سے چلنے والے غیر موثر پنکھوں پر اضافی ڈیوٹی عائد کی جائیگی جس سے 15ارب روپے کی بچت ہوگی۔ بجلی سے چلنے والے غیر موثر یکم جولائی کے بعد فیکٹریوں میں تیار نہیں کئے جا سکیں گے۔تو انائی بچت پلان کے تحت وفاقی اداروں میں بجلی کے استعمال میں 30 فیصد کمی لائی جائیگی۔ ان خیالات کا اظہار کابینہ اجلاس کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر ماحولیاتی تبدیلی ر شیری رحمٰن اوروزیر بجلی خرم دستگیر نے پریس بریفنگ میں کیا۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور وفاقی وزیر ہاﺅسنگ اینڈ ورکس مولانا عبدالواسع بھی موجود تھے۔ وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو توانائی بچت پلان کے حوالے سے اعتماد میں لیا گیا۔ توانائی کے استعمال کے حوالے سے ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنے کی ضرورت ہے، ہماری عادات و اطوار باقی دنیا سے مختلف ہیں۔ہم قدرتی توانائی کی بجائے
توانائی کو خود پیدا کرتے ہیں جس پر پیداواری لاگت آتی ہیں، آج کابینہ کے اجلاس میں کوئی لائٹ بجلی سے روشن نہیں تھی۔ سورج کی روشنی میں کابینہ کا اجلاس ہوا۔ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ وفاقی حکومت کے تمام اداروں میں بجلی کے استعمال میں 30فیصد کمی لائی جائے۔ تمام دفاتر میں برقی آلات کے غیر ضروری استعمال سے اجتناب کیا جائے۔ تمام سرکاری ادارے توانائی کے حوالے سے بجلی کی بچت والے آلات استعمال کرینگے۔ وزیرتوانائی کا مزید کہنا تھا کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے توانائی بچت کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جائیگی، پیمرا نجی ٹی وی چینلز اور ریڈیو چینلز کے ذریعے توانائی بچت کی مہم کو یقینی بنائے گی، پانی کی بچت کے حوالے سے بھرپور اقدامات کئے جائینگے۔ گھر سے کام کرنے کی تجویز پر وزیر اعظم کی سر بر اہی میں کمیٹی حتمی سفارشات مرتب کرے گی۔ بجلی چوری کو روکنے کیلئے اقدامات کئے جا ئینگے۔ وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمن نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات دیرپا نتائج کے حامل ثابت ہونگے، مارکیٹوں کو جلد بند کرنے، توانائی کے متبادل ذرائع کو بروئے کار لانے اور ورک فرام ہوم کی پالیسی سے صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
وفاقی حکومت کی طرف سے توانائی کی بچت کی جو مہم شروع کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے یہ کوئی پہلی بار سامنے نہیں آرہا بلکہ اس سے پہلے بھی سابقہ ادوار میں اس قسم کی توانائی کی بچت کے پروگرام لاگو کرنے کی کوشش کی گئی مگر یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ہم نے یعنی قوم نے نہ صرف ان توانائی بچت پروگراموں پر عمل کرنا تو درکنار بلکہ ان کا ایک طرح سے مذاق اڑایا ۔قوم سے پیشگی معذرت کے ساتھ کہ ہم شروع دن سے لوڈ شیڈنگ کا زمہ دار تو بڑی آسانی سے ہر حکومت کو قرار دیتے چلے آرہے ہیں مگر من حیث القوم ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی کہ بحیثت زمہ دار شہری کے ہمارے بھی کچھ فرائض و زمہ داریاں ہیں جنہیں اگر ہم پورا نہیں کریں گے تو ملکی ترقی کا پہیہ آگے بڑھ سکتا ہے نہ ہی معاشی آسودگی حاصل ہو سکتی ہے ۔اس سلسلے میں خا ص طور پر ہم تاجر برادری کو زیادہ قصور وار گردانتے ہیں جنہوں نے کبھی بھی کسی بھی حکومت سے تعاون کیا نہ ہی اپنی زمہ داریوں کو محسوس کیا ،جتنی بجلی شاپنگ مالز بڑی بڑی مارکیٹوں دوکانوںشادی ہالز میں استعمال ہوتی ہے اس کا عشر عشیر بھی گھریلو صارفین استعما ل نہیں کرتے اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ بڑے بڑے شاپنگ مالز مارکیٹوں اور دوکانوں میں یہی تاجر برادری جب روزی کما رہی ہو تی ہے تو انہیں زرا بھر اضافی بجلی یو ں بے دردی سے ضائع کرنے کا کوئی دکھ نہیں ہوتا مگر یہی تاجر برادری یا دوکاندرا جب گھروں کو رات گئے لوٹتے ہیں تو گھروں میں ہونےوالی لو ڈ شیڈنگ جس کے زمہ دار یہ خود ہوتے ہیں گالیاں حکومت کو دینے لگتے ہیں اور انہیں زرا بھر یہ خیال نہیں آتا کہ اگر وہ اپنی اپنی مارکیٹوں دوکانوں شادی ہالزمیں لگے نیو سائنز اور بڑے بڑ ے دیو ہیکل پینا فلیکس بورڈوں کو روشن نہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ بجلی کی طلب و رسد میں باقاعدگی پیدا نہ ہو اور نہ ہی نوبت لوڈ شیڈنگ تک پہنچے اور یہ بھی کہ جتنی روزی ان کے نصیب میں لکھی جا چکی ہے اور بہر صورت انہیں ملے گی ، چاہے سائن بورڈ روشن ہو ں یا نہ ہوں ۔مگر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ ہم گلے شکوے تو حکومت سے کر تے ہیں مگر اپنی زمہ داریاں محسوس نہیں کرتے پوری کرنا تو دور کی بات ،لہذا اس تما م تر صورتحال میں ہمیں لو ڈ شیڈنگ کا جو زمہ دار نظر آتا ہے وہ حکومت نہیں بلکہ معذرت کے ساتھ یہ تاجر برادری ہی ہے اور اس کو اسے محسوس کرنا چاہیے کہ کسی بھی حکومت کا کوئی بھی عوامی فلاحی منصوبہ یا پروگرام اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا اور نہ ہی عوام کو ریلیف مل سکتا ہے جب تک خود عوام حکومت کا ساتھ
نہ دیں اور ہمیں یقین ہے تاجر برادری سے کہ وہ وفاقی حکومت کے توانا ئی بچت پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اپنی زمہ داریاں پوری کرے گی اور فالتو اضافی بجلی کے غیر ضروری استعمال کو روک کر اپنی تجارتی مراکز کے ساتھ ساتھ اپنے ہی گھروں کو بھی لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے بچانے میں خلوص نیت کا مظاہرہ کریں گے ۔