تجزیہ نگار ایم کیو ایم لندن کے بغیر گروپس کا یکجا ہونا بے مقصد سمجھتے ہیں
سید شعیب شاہ رم
shoaib.shahram@yahoo.com
کراچی کی سیاست پر جب بھی بات ہوتی ہے تو ایم کیو ایم اورپیپلز پارٹی پر بات کئے بغیر گفتگو مکمل نہیں ہوسکتی ہے۔ اور اب اس سیاسی منظرنامہ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی شامل ہوگئی ہیں۔ اگرچہ گزشتہ چند سالوں میں کراچی پر راج کرنے والی ایم کیو ایم اب پانچ دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ان دھڑوں میں خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں ایم کیو ایم پاکستان، الطاف حسین کا ایم کیو ایم لندن کا دھڑا، مصطفیٰ کمال کی پاک سر زمین پارٹی، ڈاکٹر فاروق ستار کی ایم کیو ایم بحالی کمیٹی اور 90 کی دہائی میں علیحدگی اختیار کر کے آفاق احمد کی سربراہی میں مہاجر قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم حقیقی شامل ہیں۔ ایم کیو ایم کی اس دھڑے بندی سے یہ تاثر ابھرا تھا کہ کراچی والوں کو مینڈیٹ ختم ہوگیا ہے اور کراچی کی آواز اٹھانے والا اب کوئی نہیں۔ ایسے میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے علیحدہ ہونے والے تمام دھڑوں کو ایک ساتھ ملانے کی کوشش کی خبروں سے کراچی والوں میں کچھ امید کی کرن جاگی تھی۔ تاہم سیاسی تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ ایم کیو ایم لندن اور بانی الطاف حسین کی شمولیت کے بغیر تمام گروپس کے یکجا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
تاہم گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے ایم کیو ایم کے دھڑوں کو دوبارہ سے ملانے کے لیے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا،اس مقصد کے تحت کامران ٹیسوری نے پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال، ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی، ایم کیو ایم بحالی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار سے ملاقاتیں کی اور دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان میں شمولیت پر ا?مادہ ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا ’’ایم کیو ایم کو ایک کرنے میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا اہم کردار ہے اور ایم کیو ایم دھڑوں کے اتحاد کا اعلان جلد ہوجائے گا۔ تمام دھڑوں کے درمیان اتحاد کے بعد سربراہی پر کوئی جھگڑا نہیں‘‘
گورنر سندھ کامران ٹیسوری ایم کیو ایم لندن کو چھوڑ کر دیگر مہاجر سیاست کرنے والی جماعتوں کو دوبارہ ایک متحدہ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ سندھ کے شہری علاقوں کراچی، حیدرآباد اور میرپور خاص جیسے شہروں میں ایم کیو ایم کی نشستیں واپس لی جا سکیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے یکجا ہو جائیں مگر جب تک ایم کیو ایم لندن اور الطاف حسین کو ساتھ نہیں لیا جاتا، اکٹھے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ مائنس ایم کیو ایم لندن اور مائنس الطاف حسین کے باعث وہ نتائج کبھی نہیں مل پائیں گے، جس کے لیے سب کو اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق الطاف حسین نے جب الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو ان پر پابندی کے باوجود ووٹر باہر نہیں نکلے۔ ایسا گذشتہ عام انتخابات میں بھی نظر آیا۔لہٰذا اگر ایم کیو ایم کو ماضی کی طرح طاقتور بنانا ہے تو ایم کیو ایم لندن اور الطاف حسین کو ساتھ ملانا ہوگا۔ ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس طرح کی کوششیں ماضی قریب میں بھی کی گئیں مگر اس کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔ الطاف حسین سے لاتعلقی کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے 2018 کے عام انتخابات میں حصہ لیا مگر کراچی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور میرپور خاص اور سکھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھوں شکست کھائی۔ عام تاثر یہ ہے کہ کراچی سے گذشتہ الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بڑی تعداد میں جیتی گئی نشستوں کو واپس لینے کے لیے ایم کیو ایم کو اکٹھا کیا جا رہا ہے، اکثر تجزیہ اس تاثر کو رد کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف ایم کیو ایم کے ٹوٹے ہوئے حصوں کو ملانے تک ہی محدود نہیں، بلکہ یہ ملک بھر میں شروع ہونے والی ایک نئی صف بندی کا حصہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سے مایوسی کے بعد پاکستان کی اسٹبلشمنٹ چاہتی ہے کہ اب تمام کنٹرول حکومتی اتحاد کو دیا جائے۔تاہم وزیر اعظم شہباز شریف کی متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات ختم کرنے کی کوششیں تاحال بے، نتیجہ ثابت ہوئی ہیں جوکہ مرکز میں ان کی اہم اتحادی جماعتیں ہیں۔گزشتہ دونوں جماعتوں کے قائدین وفاقی وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے ہمراہ بلاول ہاؤس میں بلدیاتی امور سمیت اس سلسلے میں ملاقات بھی کر چکے ہیں۔