تحریک آزادی کا استعارہ‘ پروفیسر نذیر احمد شال


بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com

 2003 جاتے جاتے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے گہرا زخم دے گیا، 29 دسمبر کی صبح بطل حریت اور کشمیر کاز میں سراپا سرگرم رہنما پروفیسر نذیر احمد شال کی جدائی کی روح شکن خبر سننے کو ملی۔ اللہ کریم غریق رحمت کرے آمین ۔ پروفیسر نذیر  احمد شال پوری زندگی آزادی کشمیر کا پرچم بلند کرتے رہے۔ مقبوضہ کشمیر ‘ آزاد کشمیر ، پاکستان اور سات سمندر پار میں جہاں بھی رہے اور جس حیثیت میں رہے خود کو کشمیریوں اور کشمیر کاز کے لیے وقف کرتے رہے۔ 5 اگست 2019 کو جب ہندوستانی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حثیت کا خاتمہ کیا اور 11 دسمبر 2023ء جب بھارتی سپریم کورٹ نے انسانیت اور انصاف کش فیصلہ دیا۔ دونوں مواقع پر پروفیسر نذیر احمد شال کی بے چینی‘ بے قراری اور بے کلی دیکھنے کے قابل تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ مودی سرکار اپنے پاگل پن سے خود کو مقدمہ کشمیر سے آؤٹ کرتی جارہی ہے اب اقوام متحدہ اور کشمیریوں نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا فیصلہ کرنا ہے۔بلاشبہ پروفیسر نذر احمد شال کی زندگی کشمیریوں کے لیے مشعل راہ رہے گی…پروفیسر شال شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ  1946  میں پیدا ہوئے،یوں وہ زندگی کی77بہاریں دیکھ چکے تھے۔ابتدائی تعلیم اپنے ہی علاقہ بارہمولہ سے حاصل کرنے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر کی معروف دانشگاہ کشمیر یونیورسٹی سے شعبہ باٹنی ماسٹر ز کیا اور بعدازاں بھارتی ریاست ہماچل پردیش یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں بھی ماسٹرز کیا۔ دو مضامین میں ماسٹر زڈگری کی تکمیل کے بعد انہوں نے ضلع بارہمولہ میں ہی قائم غیر ریاستی ادارہ سینٹ جوزف انسٹیٹیوٹ سے اپنے پروفیشنل کیریئر کا آغازکیا اور بعدازاں ریاستی سرکاری محکمہ تعلیم میں بطور پروفیسر بھرتی ہوئے۔وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ 1989 میں مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے مسلح جدوجہد نے پوری شدت کیساتھ دستک دی چونکہ شال صاحب کا سسرالی خاندان جماعت اسلامی کیساتھ وابستہ تھا اور مذکورہ خاندان سے دو فرزند یعنی سگے بھائی غلام محمد میر اور رئیس میر تحریک آزادی کا حصہ بنے۔بعدازاں غلام محمد میر حزب المجاہدین کے بٹالین کمانڈر مقرر ہوئے اور ایک بڑے معرکے میں دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔اہل کشمیر کی مسلح جدوجہد نے بھارت کو زچ کیا تو اس کا بدلہ غیر مسلح کشمیریوں سے لیا جانے لگا۔بھارتی مظالم اس قدر بڑھ گئے کہ 1991 میں شہید غلام محمد میر کی اہلیہ کو بھی بھارتی درندوں نے شہید کیا تھا۔
جبکہ فروری 1986 میں غلام حسن میر جو کہ ایک سول انجینئر اور اسلامک اسٹڈی سرکل کے بنیادی رکن بھی تھے، کو دو درجن سے زائد سرکاری ملازمین سمیت نوکری سے برطرف کیا گیا جن میں پروفیسر عبدالغنی بٹ اور پروفیسر محمد اشرف صراف بھی شامل تھے،وہ اب کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما ہیں۔انہیں مقبوضہ جموں وکشمیر کے سابق سفاک گورنر جگموہن جو اصل میں  بی جے بی اورآر ایس ایس کے ساتھ وابستہ تھے کو "حق رائے شماری کے مطالبے کی پاداش کے الزام میں ریاست کی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیکر نوکریوں سے برخاست کیا تھا‘‘بھارتی مظالم کے باعث پروفیسر نذیر احمد شال بھی اپنی پوری فیملی سمیت اپنا مادر وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور پاکستان ان کی پہلی منزل ٹھری۔ ان کی اہلیہ محترمہ شمیم شال بھی شعبہ تعلیم کیساتھ وابستہ تھیں لہذا دونوں میاں بیوی نے تعلیمی سرگرمیاں یہاں بھی جاری رکھیں۔شال صاحب چونکہ اعلی تعلیم یافتہ تھے ۔وہ90کی دہائی میں پی ٹی وی کے پروگرام کشمیر میگزین میں بطور مبصر اس کاحصہ بنے رہے۔وقت کیساتھ ساتھ شال صاحب کشمیری کیمونٹی کے بہت قریب آگئے ۔انہیں دوسروں کو جاننے اور دوسروں کو انہیں جاننے کا موقع میسر آیا۔پھر سماجی اور معاشرتی تعلقات قائم ہوتے ہوگئے۔وہ تحریک حریت جو بعدازاں کل جاعتی حریت کانفرنس میں تبدیل ہوگئی ،اس کا حصہ رہے اور بطور آفس بیریر کے فرائض انجام دیتے رہے ،ان میں کام کرنے کا جون تھا۔ سسرالی خاندانی پس منظر کی بنیاد پر شال صاحب جماعت اسلامی آزاد کشمیر ،حزب المجاہدین اور حتی کہ جماعت اسلامی پاکستان کے بھی بہت قریب ہوگئے۔اسی قربت کا نتیجہ تھا کہ انہیں جماعت اسلامی آزاد کشمیر نے اپنی رکنیت سے نوازا اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے آزاد کشمیر جماعت کی جانب سے مہاجرین کشمیر کی سیٹ پر الیکشن میں حصہ بھی لیا ۔یہ ان کی ذہانت ہی تھی کہ انہیں کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا،جس پر وہ 2004 تک تعینات رہے۔2004 میں یورپ کے کئی ممالک میں کشمیر سنٹرز کا قیام عمل میں لایا گیا تو شال صاحب کو کشمیر سنٹر برطانیہ کے سربراہ کے بطور برطانیہ بھیجا گیا جہاں پھر وہ زندگی کی آخری سانس تک مقیم رہے۔ جوالائی 2001 میں جب حزب المجاہدین نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں جنگ بندی کی تھی،تو جنگ بندی کا اعلان واپس لینے سے قبل سید صلاح الدین احمد نے پاکستان میں تعینات مغربی ممالک کے سفراء کو خطوط بھیجنے کا فیصلہ کیا تھاتاکہ انہیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی وعدہ خلافیوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اہل کشمیر کے حق خودارادیت سے متعلق وعدے سے بھارتی انحراف سے اگاہ کرنا تھا۔جب خط ڈرافٹ کرنے کا وقت آیا تو اس کیلئے بھی شال صاحب کا انتخاب کیا گیا۔مغربی سفارتکاروں کو بھیجا جانے والا مذکورہ خط عالمی ذرائع ابلاغ میں خوب شہرت حاصل کرچکا تھا۔بلاشبہ اہل کشمیر ایک کہنہ مشق سفیر،تحریک آزادی کے رہنما اور بہی خواہ سے محروم ہوگئے ہیں۔پروفیسر شال نے اپنی پوری زندگی تحریک آزاد کشمیر کیلئے وقف کررکھی تھی ۔ وہ تمام عمر کشمیری عوام کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد کیلئے سیاسی اور سفارتی سطح پر خدمات انجام دیتے رہے ۔شال صاحب انسانی حقوق کے علمبردار ،ایک شاعر ، ادیب ، صحافی ، کالم نگار اور ماہر تعلیم تھے اورانہیں انگریزی، اردو اور کشمیری زبانوں پر بھر پور عبور حاصل تھا ۔وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔2020 میں جب کورونا وائرس اپنے جوبن پر تھا تو شال صاحب ایک اور کشمیری رہنما بیرسٹر عبدالمجید ترمبو کے ہمراہ سرزمین کشمیر کے ایک اور ہونہار فرزند شیخ تجمل الاسلام سے ملنے ان کے دفتر کشمیر میڈیا سروس آئے تھے،چونکہ مجھے بھی اس وقت ان دونوں صاحبان سے ملنے کا موقع میسر آیا ،میں نے شال صاحب کو بہت ہی نحیف اور کمزور پایا اور ان کی بات چیت میں وہ گرج نہیں تھی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔بعدازاں پتہ چلا کہ انہیں گردوں کا عارضہ لاحق ہوچکاتھا۔شال صاحب کو ان کی تحریکی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔تحریک آزادی کشمیر کے سمبل سید صلاح الدین احمد نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ پروفیسر نذیر احمد شال تحریک آزادی کشمیر کے متحرک سفیر تھے اور وہ موت کی آخری سانس تک اپنی بھر پور وابستگی نبھاتے رہے۔ اہل کشمیر ایک سفیر سے محروم ہوگئے البتہ ان کا ادھورا مشن جاری رکھاجائے گا۔وہ بستر مرگ پر بھی تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کیلئے دعا گو تھے۔یقیناان کی رحلت تحریک آزادی کشمیر کے سفارتی محاذ پر ایک بڑا خلا ہے جس سے پر کرنا شائد ممکن نہیں ہوگا ۔البتہ آزادی کے راستے میں جانی و مالی قربانیاں دینے والے ہی تاریخ اور تحریک میں امر ہوجاتے ہیں ۔ یکم جنوری 2024  کوکل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر و پاکستان شاخ کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا،جس سے کنونیر محمود احمد ساغر نے جہاں شال صاحب کو ان کی تحریکی خدمات پر انہیں سراہا وہیں اپنے مختصر مگر مدلل اور معنی خیز گفتگو میں پوری کشمیری کیمونٹی کے سامنے ایک روڈ میپ رکھا ہے ۔انہوں نے آزاد جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کی موجودگی میں یورپ میں کشمیر سنٹرز کو دوبارہ متحرک کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ کشمیری عوام کے سفیروں باالخصوص مرحوم شال کے مشن کو آگے بڑھایا جاسکے،یہی انہیں بہترین خراج عقیدت ہوگا۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ہندوستانی حکومت نے ان  کے بلند حوصلہ توڑنے کے لیے جبر کے سلسلے دراز کئے مگر آفرین ہے ’’بوڑھے حریت پسند‘‘ پر ہے ان کے ماتھے پر شکن آئی نہ ارادوں پر لغرش… وہ اپنے بلند اور اعلی مقصد کے لیے مسلسل گامزن رہے۔ ان کی زندگی کا سبق کشمیریوں نے سیکھ لیا ہے کہ حیات سے بڑھ کر مقصد کی لگن انسان کو بلند درجے پر فائز کرتی ہے۔ان شاء اللہ  ان کا مشن جاری رہے گا اور ان کے مشن کی بدولت کشمیری ایک دن آزاد فضاء میں سانس لینے کے قابل ہو جائیں گے’’ پاکستانیوں اور کشمیریوں کا اپنے محبوب لیڈر کو سلام‘‘

ای پیپر دی نیشن