شاز ملک۔
میرے دل میں در آنے والا انوکھا خیال جب میری سوچ کے پل صراط سے گزر کر میرے قلم کی دسترس تک پہنچتا ہے تو میں اسے قرطاس پر بکھرنے سے نہیں روک سکتی۔۔۔
ہم روزمرہ کی زندگی کے پر پیچ راستوں پر اپنے تئیں توازن کے ساتھ چلنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔۔ غم و خوشی میں اپنے پرائے کی تمیز کر کے جینے کے نئے متوازن ڈھنگ سے جینے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر جب تک ہم اپنے دین اسلام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور اپنے پیارے پیغمبر صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو سنت کو سمجھتے نہیں ہم تب تک علم سے اخلاقیات سے نابلد ہی رہتے ہیں۔۔
مگر جب ہم وہاں پہنچتے ہیں جہاں ہماری عبادات کا مرکز خانہ کعبہ ہے اور ہماری محبت کا مرکز آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا دربار ہے مکہ مدینہ کے انوار وتجلیات کو محسوس کرتے ہیں زبان دل اور روح کی گہرائیوں سے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرتے ہیں اپنے پیغمبر محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے گنبد خضرا اور مسجد نبوی میں عبادات کر کے انورات کو محسوس کر کے اپنی ارواح میں جذب کرتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم ہر گناہ سے پاک ہو گئے عجیب سی جسمانی دلی دماغی اور روحانی کیفیات میں نورانیت کا احساس ہوتا ہے۔ اس وقت دیارِ جنت یعنی مکہ اور مدینہ پاک کی جنتی ہواؤں فضاؤں کی حدود سے باہر نکل کر پھر دنیا کے دوزخ میں داخل ہوتے ہوئے میں یہ سوچ رہی ہوں کہ حضرت آدم علیہ اسلام جنہوں نے زندگی کا احساس ہوتے ہی رب پاک کو دیکھا فرشتوں کو دیکھا شیطان کی نفرت کا ، حسد کا سامنا کیا۔۔ جنت میں سانسیں لیں اس جنتی ماحول کے عادی ہو کر دنیا کے دوزخ میں داخل ہونے پر کس قدر اذیت تکلیف درد سے روئے ہونگے کس قدر اذیت میں ہونگے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر اْس اذیت کے تھوڑے سے لمحات ہم پر بھی گزرتے ہیں جب ہم مکہ مدینہ کی جنت سے نکلتے ہیں کسقدر اذیت سے دو چار ہو کر روتے ہوئے وہاں سے نکلتے ہیں ۔۔۔ اس دنیا کے دوزخ میں جہاں قدم قدم پر شیطان ملعون ابلیس کے مکر و فریب کے جال بچھے ہیں حسد لالچ طمع کینہ پروری منافقت کے گڑھے جا بجا ہیں۔۔ ہمیں ہر حال میں دنیا داریوں کی خباثتوں سے بچنا ہے۔۔ میری سوچ یہی سوچ کر تکلیف کے پل صراط سے گزر رہی ہے کہ رب تعالی ہمیں ہر آن شیطان کے شر اور انسانوں کے حسد سے محفوظ رکھے آمین۔۔ یکدم یہ سوچ ذہن میں آ رہی ہے کہ کیا وہ ہاتھ جو خانہ کعبہ کے مقدس غلاف کو چھو لے جہاں اللہ پاک کا مبارک نام لکھا ہے اس کے بعد کیا کبھی وہ ہاتھ غلط کام کرنے کی جسارت کرے گا کیا ہاتھوں کی انگلیوں میں سے ایک انکلی بھی کسی کی بیٹی کسی کی ماں بہن کے کردار پر اٹھ سکے گی ؟ وہ زبان جس نے خانہ کعبہ کے سامنے کلمہ پڑھتے ہوئے استغفار کیا ہو او ر تو رو کر اپنے گناہوں پر معافی طلب کی ہو کیا وہ کسی کی غیبت بہتان الزام تراشی گالی کلوچ کر سکتی ہے۔۔ وہ کان جنہوں نے حرم پاک میں لبیک الھمَ لبیک کی صدائیں اور آذانیں سنی ہوں وہ کیا کوئی غلط بات کسی کی چغلی سن سکیں گے۔ وہ پاؤں جو بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ میں سعی کے لئے چلے ہونگے وہ کیا کسی غلط سمت قدم اٹھ سکیں گے
آپ کبھی نماز قضا نہیں کر سکتے کیونکہ حرم پاک میں اور مسجد نبوی میں با جماعت صف باندھ کر نماز پڑھنے۔کے بعد پورا جسم نماز کے سرور اور کیف سے نہیں نکل سکے گا جبتک زندہ رہے گا۔۔
کیا اللہ کے گھر سے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار اور مسجد نبوی سے نکل کر کوئی گناہ کی طرف راغب ہو گا۔۔۔ نہیں شاید کبھی نہیں۔۔۔
کیونکہ خدا کے گھر سے پاک ہو کر نکلنے کے بعد کون گناہوں کی گندگی میں لتھڑنا چاہے گا۔۔ وہ ہی جو رب کے کرم سے محروم ہو گا کیونکہ حج عمرہ کرنا آسان ہے مگر اسکو سنبھالنا مشکل ہے کہ آپ جنت سے نکل کر دنیا کے دوزخ میں آتے ہیں اور جو اصل میں نیک پاک صاف رہنا چاہتے ہیں وہ کبھی مکہ مدینہ کی ہواؤں مقدس جنتی فضاؤں سے باہر ہی نہیں نکلتے۔۔انکا دل دماغ اور روح وہیں بسی ہوتی ہے کیونکہ یہ سچ بات ہے کہ انسان جنت سے کبھی باہر نہ نکالا جاتا اگر خدا کے حکم کی نا فرمانی نہ کرتا۔۔۔سو۔۔
ایسی پاک ارواح دنیا میں رہتے ہوئے بھی وہیں رہتی ہیں۔۔
اور میں تو بس اس نکتے پر پہنچی ہوں کہ بس اس انسان کو چپ لگ جاتی ہے اسکی نظر بس اپنے گناہوں پر اپنی خطاؤں پر رہتی ہے اور فکر آخرت اسے گناہوں سے بد دل کر دیتی ہے کیونکہ رب تعالی کا کرم اس کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔رب تعالی ہم سب کے دلوں کو پاکیزگی بخشے اور اپنی عبادات کو سنبھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
"سوچ کا پل صراط " !
Jan 05, 2024